“پولیس وردی میں بیٹھا شخص… اور سامنے خاتون سگریٹ پی رہی ہے!”

کیا یہ مذاق صرف سوشل میڈیا پر ہے، یا قانون بھی کچھ کہے گا؟

یہ ویڈیو شاید آپ نے بھی دیکھی ہو — ایک خاتون، سگریٹ تھامے، پولیس وردی میں ملبوس شخص کے ساتھ ٹک ٹاک ویڈیو بنا رہی ہے۔ ہنسی مذاق، بے فکری، اور بظاہر کوئی شرمندگی نہیں۔
مگر جیسے ہی ویڈیو وائرل ہوئی، قانون نے آنکھیں کھولیں — اور یوں ٹک ٹاکر کاشف ضمیر کے خلاف پولیس یونیفارم کی تضحیک کے الزام میں مقدمہ درج کر لیا گیا۔

یہ صرف ایک ویڈیو نہیں، ایک سوچ کی عکاسی ہے۔ ایک ایسا رویہ جو سستی شہرت کے لیے اداروں، وردیوں، اور قومی وقار کو کھیل بنا دیتا ہے۔

کاشف ضمیر کوئی نیا نام نہیں۔ اس سے پہلے بھی وہ ترک اداکار انگن التان (ارتغرل) کے ساتھ جعل سازی، معاہدے کی خلاف ورزی، اور فراڈ جیسے الزامات میں خبروں کی زینت بن چکے ہیں۔ لیکن ستم ظریفی یہ ہے کہ ایسے کردار نہ صرف آزاد گھومتے ہیں بلکہ انہیں بعض اوقات “مہمان خصوصی” کی حیثیت سے اداروں میں مدعو بھی کر لیا جاتا ہے۔

لیکن اس بار حد ہو گئی۔ پولیس وردی، جو عزت، ذمہ داری اور قانون کی علامت ہے، اس کی تضحیک صرف مذاق نہیں — یہ عوامی اعتماد کی توہین ہے۔ وردی پہننا صرف لباس نہیں، ایک ذمہ داری کا بوجھ ہے۔ اور جب یہی وردی کسی ٹک ٹاک ویڈیو میں تماشہ بن جائے، تو سوال صرف اس ایک شخص یا خاتون پر نہیں، بلکہ پوری سوسائٹی پر اٹھتا ہے۔

کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ اب ہر چیز “کانٹینٹ” ہے؟
کیا ہر چیز “ویوز” کے لیے جائز ہو گئی ہے؟
کیا قانون صرف کاغذوں تک رہ گیا ہے یا اب وہ حرکت میں آئے گا؟

خوش آئند بات یہ ہے کہ پولیس نے فوری ایکشن لیا۔ وردی میں موجود اہلکار کو معطل کر دیا گیا، اور واقعے کی باقاعدہ انکوائری شروع ہو چکی ہے۔
یہ قدم نہ صرف قانون کی بالادستی کی علامت ہے، بلکہ ایک پیغام ہے —
ادارے مذاق نہیں، اور جو انہیں مذاق سمجھتے ہیں، انہیں اس کا خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں