دو دہائیوں پر محیط ایک پرسرار کہانی — کلثوم اکبری، جس پر الزام ہے کہ اس نے اپنے شوہروں کو خاموشی سے موت کے گھاٹ اتارا۔

کلثوم اکبری کیس: 2000 سے 2022 تک پھیلا ایک مبینہ زہر کا سلسلہ
کلثوم اکبری کا نام حالیہ برسوں میں میڈیا اور عوامی مباحث میں ایک خوفناک الزام کے ساتھ سامنے آیا ہے۔ ان پر دعویٰ کیا جا رہا ہے کہ انہوں نے 2000 سے 2022 کے درمیان اپنے کئی شوہروں کو زہر دے کر قتل کیا۔ اگر یہ الزامات درست ثابت ہوتے ہیں تو یہ معاملہ پاکستان میں نہ صرف مجرمانہ تاریخ کا منفرد کیس بن جائے گا بلکہ ایک نفسیاتی اور سماجی تحقیق کا موضوع بھی ہوگا۔

الزامات کی نوعیت
دعویٰ ہے کہ 22 سال کے عرصے میں کلثوم اکبری کے متعدد شوہر مشتبہ حالات میں ہلاک ہوئے۔

فارنزک اور میڈیکل رپورٹس میں کچھ کیسز میں زہریلے مادے کی موجودگی کا اشارہ ملا ہے۔

حکام کے مطابق یہ الزامات محض اتفاقی اموات نہیں بلکہ ایک منظم طریقہ کار کا حصہ ہو سکتے ہیں۔

ممکنہ محرکات
اگرچہ تحقیقات ابھی جاری ہیں، لیکن ماہرین جرم (criminologists) کے مطابق ایسے واقعات میں محرکات درج ذیل ہو سکتے ہیں:

مالی فائدہ: وراثت یا انشورنس کی رقم۔

ذاتی انتقام: گھریلو جھگڑے یا تعلقات میں ناکامی۔

نفسیاتی وجوہات: بعض اوقات “black widow” سنڈروم، جس میں فرد تعلقات میں قتل کو کنٹرول کا ذریعہ سمجھتا ہے۔

تحقیقات اور چیلنجز
اتنے طویل عرصے میں ہونے والی اموات کے شواہد اکٹھے کرنا مشکل ہے، خاص طور پر پرانے کیسز میں جہاں پوسٹ مارٹم یا ٹاکسیکولوجی رپورٹس مکمل نہیں ہوتیں۔

کئی مبینہ متاثرین کے خاندانوں نے تحقیقات میں تعاون شروع کر دیا ہے۔

کچھ کیسز میں دوبارہ قبر کشائی (exhumation) اور فارنزک تجزیہ کیا جا رہا ہے۔

سماجی اور قانونی پہلو
یہ کیس معاشرے میں گھریلو تعلقات میں عدم اعتماد، جرائم کی پوشیدگی، اور خواتین مجرموں کے بارے میں معاشرتی تصورات کو بھی چیلنج کرتا ہے۔ پاکستان میں ایسے کیسز کم سامنے آتے ہیں، جس سے یہ معاملہ مزید توجہ کا مرکز بن رہا ہے۔

کلثوم اکبری کیس ابھی زیرِ تفتیش ہے، اور عدالت میں ثبوت پیش ہونے کے بعد ہی حتمی فیصلہ سامنے آئے گا۔ تاہم یہ واقعہ اس بات کی سنگین یاد دہانی ہے کہ جرم اور تشدد کسی ایک صنف تک محدود نہیں، اور انصاف کے تقاضے وقت گزرنے کے باوجود بھی پورے کرنے ضروری ہیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں