“دہشت گردی کی نئی لہر نے خیبر پختونخوا کو ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال کی لپیٹ میں لے لیا ہے۔”

PE1 (تفصیلی اور طویل تجزیاتی پیراگراف):
خیبر پختونخوا میں حالیہ دنوں کے دوران دہشت گردوں کے کم از کم 14 منظم اور ہلاکت خیز حملے اس امر کی نشاندہی کرتے ہیں کہ پاکستان میں شدت پسندی ایک بار پھر منظم ہو کر سر اٹھا رہی ہے۔ ان حملوں کا نشانہ زیادہ تر سیکیورٹی چیک پوسٹس، پولیس اسٹیشنز، اور گشت پر مامور اہلکار بنے، جس کے نتیجے میں متعدد پولیس اہلکار شہید اور درجنوں زخمی ہوئے۔ یہ صورت حال نہ صرف امن و امان کے حوالے سے ایک خطرناک پیغام ہے بلکہ ریاستی رٹ کے لیے بھی ایک کھلا چیلنج ہے۔ ان حملوں میں استعمال ہونے والے جدید ہتھیار، حملہ آوروں کی پیشہ ورانہ تربیت، اور حملوں کی منصوبہ بندی اس بات کا ثبوت ہیں کہ دہشت گرد تنظیمیں ایک منظم نیٹ ورک کے تحت دوبارہ فعال ہو رہی ہیں۔ تجزیہ کار اس لہر کو افغانستان کی بدلتی سیاسی صورتحال، بارڈر مینجمنٹ کی کمزوری، اور کالعدم تنظیموں کو حاصل بعض بیرونی معاونت سے جوڑتے ہیں۔
مزید برآں، صوبے میں سیاسی عدم استحکام، معاشی دباؤ، اور مقامی سطح پر انٹیلیجنس شیئرنگ کے فقدان نے سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر منفی اثر ڈالا ہے۔ کئی حملوں میں تاخیر سے ردعمل، یا حملہ آوروں کے فرار ہونے کے واقعات نے ادارہ جاتی خامیوں کو بے نقاب کیا ہے۔ عوامی اعتماد میں کمی، پولیس فورس کا مورال گرنا، اور مسلسل خوف کی فضا نے شہری زندگی کو بھی بری طرح متاثر کیا ہے۔ خاص طور پر ضم شدہ قبائلی اضلاع اور سرحدی علاقوں میں یہ صورتحال مزید پیچیدہ ہو گئی ہے جہاں پہلے ہی انفراسٹرکچر کی کمی اور حکومتی رٹ کمزور ہے۔
اس تمام تر پس منظر میں حکومت اور ریاستی اداروں کے لیے یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ محض فوجی کارروائیوں یا وقتی آپریشنز سے اس خطرے کو مکمل طور پر ختم نہیں کیا جا سکتا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک ہمہ جہت قومی پالیسی ترتیب دی جائے، جس میں مقامی کمیونٹی کی شمولیت، مدرسہ اصلاحات، سرحدی نگرانی کا مؤثر نظام، اور نوجوانوں کو دہشت گرد گروہوں کے بیانیے سے بچانے کے لیے تعلیمی و معاشی مواقع شامل ہوں۔ اگر اس لہر کو بروقت نہ روکا گیا تو خدشہ ہے کہ خیبر پختونخوا ایک بار پھر دہشت گردوں کی آماجگاہ بن جائے گا، جس کا اثر نہ صرف اس صوبے بلکہ پورے پاکستان کی سلامتی پر پڑے گا۔