چین کی جنگی فتح کی 80ویں سالگرہ پر طاقت کا بھرپور مظاہرہ، بھارت کو نظرانداز کر کے پیغام واضح کر دیا گیا۔

چین کی عظیم فتح کی 80ویں سالگرہ: طاقت، سفارتکاری اور پیغام
بیجنگ میں شاندار تقریب، دنیا کی نظریں چین پ“وزیراعظم کا چین روانہ ہونا: ایس سی او اجلاس میں شرکت کے لیے اہم دورہ”ر
چین نے دوسری جنگ عظیم میں جاپان پر اپنی تاریخی فتح اور اسے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنے کی 80ویں سالگرہ بیجنگ میں انتہائی شان و شوکت سے منائی۔ یہ تقریب نہ صرف تاریخی یادگار تھی بلکہ چین کی موجودہ فوجی اور سفارتی طاقت کا بھرپور مظاہرہ بھی بنی۔
بیجنگ میں ہونے والی اس بڑی تقریب میں چین نے دنیا کو اپنی عسکری طاقت، عوامی اتحاد اور تاریخی عظمت کا پیغام دیا، جس میں اعلیٰ فوجی قیادت، عالمی رہنما، اور معزز مہمان شریک ہوئے۔
وزیراعظم شہباز شریف کی خصوصی شرکت
پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف اس تقریب میں بطور مہمان خصوصی شریک ہوئے، جس نے چین اور پاکستان کے درمیان گہرے اور سدا بہار تعلقات کی عکاسی کی۔ ان کی شرکت نہ صرف دونوں ممالک کی اسٹریٹجک پارٹنرشپ کو اجاگر کرتی ہے بلکہ یہ بھی ظاہر کرتی ہے کہ چین علاقائی دوستوں کو کتنی اہمیت دیتا ہے۔
وزیراعظم نے چین کی قربانیوں کو خراج تحسین پیش کیا اور دونوں ممالک کے درمیان دفاعی، اقتصادی و سفارتی تعاون کو مزید مضبوط بنانے کا عزم دہرایا۔
بھارتی وزیراعظم مودی کو دعوت نہ دینا: ایک واضح پیغام؟
تقریب میں ایک اور قابلِ توجہ بات یہ رہی کہ چین نے بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کو اس اہم موقع پر مدعو ہی نہیں کیا۔ بین الاقوامی سفارتی حلقے اس غیرموجودگی کو خاصی اہمیت دے رہے ہیں۔
یہ قدم بظاہر چین-بھارت تعلقات میں جاری کشیدگی، خاص طور پر سرحدی تنازعات اور جیوپولیٹیکل کشمکش کی عکاسی کرتا ہے۔ چین کی جانب سے مودی کو نظر انداز کرنا بظاہر ایک سفارتی پیغام تھا — “ہم دوستی کے مستحق ساتھیوں کو ہی عزت دیتے ہیں۔”
عالمی سطح پر طاقت کا مظاہرہ یا نیا اتحاد؟
تقریب میں مختلف ممالک کے رہنماؤں کی شرکت اور چین کے شاندار عسکری مظاہرے نے دنیا کو یہ باور کرایا کہ چین اب صرف تاریخ کا فاتح نہیں، بلکہ مستقبل کا فیصلہ ساز بھی بننے جا رہا ہے۔ پاکستان جیسے قریبی اتحادیوں کی موجودگی اور بھارت جیسے علاقائی حریف کی غیر موجودگی اس تاثر کو مزید واضح کرتی ہے کہ چین اپنی خارجہ پالیسی میں “دوستی اور طاقت” دونوں کا چالاک امتزاج استعمال کر رہا ہے۔