“لاہور ہائیکورٹ بار میں علی امین گنڈاپور کا دھواں دار خطاب — کیا پاکستان کے طاقتور حلقے واقعی لیڈر سے ڈرتے ہیں؟”

لاہور ہائیکورٹ بار میں وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا، علی امین گنڈاپور کا خطاب محض ایک تقریر نہیں، بلکہ ایک چبھتا ہوا سوال تھا جو ملک کے طاقتور حلقوں کے کردار، سیاسی انجینئرنگ، اور عوامی رائے کو روندنے کے عمل پر کیا گیا۔ اُن کے الفاظ، اُن کا لہجہ اور اُن کا پیغام، سب کچھ گویا اس سسٹم کے خلاف ایک کھلی بغاوت کی مانند تھا — اور یہی وجہ ہے کہ اُن کی تقریر کو “خوفناک” کہا جا رہا ہے۔
گنڈاپور نے جس انداز میں پاکستان کی سیاسی تاریخ کو کھنگالا، اُس میں کوئی جھجک یا روایتی مصلحت نظر نہیں آئی۔ وہ سیدھا نشانہ “فیصلہ سازوں” پر لے کر آئے — وہ طاقتور حلقے جن پر ماضی میں حکومتیں بنانے، گرانے، اور سیاستدانوں کو کٹھ پتلیوں میں بدلنے کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مسئلہ کسی ایک سیاسی جماعت یا فرد کا نہیں، بلکہ ایک ایسے نظام کا ہے جہاں حقیقی لیڈرشپ کو ابھرنے نہیں دیا جاتا۔ اُن کے بقول، فیصلہ سازوں کو لیڈر نہیں غلام درکار ہیں — وہ سیاستدان جو اشاروں پر چلیں، سوال نہ کریں، اور عوامی جذبات کو کچلنے میں رکاوٹ نہ بنیں۔
خطاب میں انہوں نے ماضی کے کئی اہم واقعات کا حوالہ بھی دیا: بھٹو کو ملنے والا ایوارڈ، بنگلہ دیش کا قیام، اور زبردستی حکومتیں بنانے کے دعوے — گویا وہ تاریخ کے زخموں کو پھر سے کھول کر قوم کو یہ یاد دلانا چاہتے تھے کہ اگر آج سچ نہ بولا گیا تو کل پھر تاریخ دہرائی جائے گی۔
علی امین گنڈاپور نے اپنی تقریر میں عمران خان کا تذکرہ بھی زور دے کر کیا، یہ کہتے ہوئے کہ موجودہ نظام کو عمران خان سے خطرہ اسی لیے ہے کیونکہ وہ لیڈر ہے، غلام نہیں۔ ان کے مطابق خان نہ صرف ایک بیانیے کی علامت ہے بلکہ وہ عوام کی اس خواہش کی نمائندگی کرتا ہے جو اس فرسودہ نظام سے نجات چاہتی ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ عمران خان کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جا رہی ہے، کیونکہ وہ اس “سہولت کاری پر مبنی” نظام میں فٹ نہیں بیٹھتا۔
خطاب میں سخت الفاظ، تلخ جملے، اور سچائی کا وہ زاویہ موجود تھا جسے اکثر اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ کہا جاتا ہے۔ مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ ایسے بیانات پاکستان کے سیاسی دھارے کو ایک نئے موڑ پر لا کھڑا کرتے ہیں۔ کچھ حلقے گنڈاپور کے خطاب کو جذباتی اور اشتعال انگیز کہہ رہے ہیں، جبکہ دوسروں کے نزدیک یہ وہ سچ ہے جو برسوں سے دبایا جاتا رہا۔
سب سے اہم سوال یہی ہے: کیا اس نظام میں واقعی اتنی گنجائش ہے کہ کوئی اصل لیڈر، عوام کے مینڈیٹ کے ساتھ، بغیر اسٹیبلشمنٹ کی رضا کے، اقتدار میں آ سکے؟ یا پھر یہ نظام ہمیشہ غلام پیدا کرتا رہے گا، اور لیڈرز کو کچلتا رہے گا؟
علی امین گنڈاپور کا خطاب شاید ایک لمحاتی جذباتی تقریر تھا، لیکن اس کے پیچھے چھپا پیغام ایک گہری سوچ کی دعوت دیتا ہے۔ یہ تقریر ہمیں مجبور کرتی ہے کہ ہم پاکستان کے نظامِ حکومت، ادارہ جاتی توازن، اور جمہوری اقدار پر ازسرنو غور کریں۔ کیونکہ اگر واقعی فیصلہ سازوں کو لیڈر نہیں غلام چاہیے، تو پھر عوام کا کیا مستقبل ہے؟