امریکہ کا دہرا معیار: بھارت اور پاکستان کے تنازع میں منافقت کا مظاہرہ

بین الاقوامی سیاست میں امریکہ کا دہرا معیار کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت اور پاکستان کے درمیان تنازع کی بات ہو تو امریکہ کا رویہ ہمیشہ ایک جیسے تضادات کا شکار نظر آتا ہے۔ جب بھارت کی جانب سے لائن آف کنٹرول پر جارحیت کی جاتی ہے، تو امریکہ کا مؤقف یہ ہوتا ہے کہ وہ اس جنگ میں غیرجانبدار ہے اور دونوں ممالک کو تحمل سے کام لینے کی تلقین کرتا ہے۔ لیکن جیسے ہی بھارت کو پاکستانی دفاعی صلاحیت کے آگے ہزیمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے، امریکہ فوراً مداخلت کے لیے میدان میں آ جاتا ہے۔

یہ رویہ صرف بھارت اور پاکستان کے معاملے تک محدود نہیں۔ امریکہ کی عالمی سیاست میں بھی یہی طرز عمل نظر آتا ہے۔ جہاں اس کے اپنے مفادات ہوں، وہاں وہ جمہوریت، انسانی حقوق اور عالمی قوانین کی بات کرتا ہے، لیکن جہاں اس کے مفادات پر زد پڑتی ہو، وہاں وہ ان ہی اصولوں کو نظر انداز کر دیتا ہے۔

بھارت کے حوالے سے امریکہ کی اس جانبداری کی کئی وجوہات ہیں۔ سب سے اہم وجہ بھارت کی بڑی تجارتی منڈی اور امریکہ کی اسٹریٹیجک پارٹنرشپ ہے، جو چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے لیے ضروری سمجھی جاتی ہے۔ امریکہ نے ہمیشہ بھارت کو خطے میں اپنا اسٹریٹیجک اتحادی سمجھا ہے، اور اس کے اسی مفاد کی خاطر وہ پاکستان کے جائز تحفظات کو بھی نظر انداز کر دیتا ہے۔

یہ منافقت اس وقت مزید نمایاں ہو جاتی ہے جب امریکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر بھارت کو تو نظر انداز کر دیتا ہے، لیکن اسی معاملے پر دوسرے ممالک پر پابندیاں عائد کر دیتا ہے۔ کشمیر میں بھارتی افواج کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر امریکی خاموشی اور دوسری جانب چین، ایران اور روس پر انسانی حقوق کے نام پر دباؤ ڈالنا، اس کے دہرے معیار کی بہترین مثالیں ہیں۔

پاکستان کے عوام نے بارہا امریکہ کے اس دوغلے رویے کو محسوس کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں امریکہ مخالف جذبات ہمیشہ موجود رہے ہیں۔ امریکی حکام کے بیانات اور عملی اقدامات میں تضاد، پاکستانی عوام کے لیے مایوسی کا باعث بنتا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ امریکہ کی خارجہ پالیسی ہمیشہ اپنے مفادات پر مبنی رہی ہے اور وہ اصولوں کی بجائے مواقع پر نظر رکھتا ہے۔ جب تک امریکی مفادات بھارت سے وابستہ ہیں، تب تک پاکستان کو اس منافقت کا سامنا کرنا پڑے گا۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں