ایران-اسرائیل کشیدگی کے بیچ، سینکڑوں پاکستانی شہری ایران میں پھنس گئے — حکومتِ پاکستان نے ہنگامی واپسی کے اقدامات شروع کر دیے ہیں۔

ایران میں پھنسے پاکستانی: کیا ہو رہا ہے؟
حالیہ ایران-اسرائیل کشیدگی کے باعث ایران میں غیر ملکیوں، خصوصاً پاکستانی زائرین، طلبہ، مزدوروں اور کاروباری افراد کی صورتحال پریشان کن ہو گئی ہے۔
سیکڑوں پاکستانی شہری مختلف شہروں (خصوصاً قم، مشہد، تہران) میں سیکیورٹی خدشات کے باعث پھنسے ہوئے ہیں۔
حکومتِ پاکستان کے اقدامات:
وزارت خارجہ کی ہدایات:
وزارتِ خارجہ نے ایران میں پاکستانی سفارتخانے کو ہنگامی بنیادوں پر تمام رجسٹرڈ شہریوں سے رابطے کی ہدایت کی ہے۔
ایمرجنسی ہیلپ لائن کا قیام:
تہران اور مشہد میں پاکستانی سفارتخانے نے 24/7 ہیلپ لائنز جاری کی ہیں تاکہ پھنسے ہوئے افراد یا ان کے اہلِ خانہ مدد حاصل کر سکیں۔
رجسٹریشن اور فہرست سازی:
ایرانی شہروں میں مقیم پاکستانیوں کو آن لائن/فون کے ذریعے رجسٹریشن کروانے کو کہا گیا ہے تاکہ ان کی واپسی کے لیے انتظامات کیے جا سکیں۔
ایوی ایشن تعاون:
پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائن (PIA) اور خصوصی چارٹرڈ پروازوں کے ذریعے واپسی کی اسکیم تیار کی جا رہی ہے، تاہم ایران کی فضائی سیکیورٹی صورتِ حال پر نظر رکھی جا رہی ہے۔
ایران سے سفارتی رابطے:
پاکستانی سفیر نے ایرانی حکام سے ملاقات کر کے پاکستانیوں کے تحفظ اور ان کی جلد واپسی کے لیے مکمل تعاون کی درخواست کی ہے۔
موجودہ مشکلات:
فضائی پابندیاں:
کچھ ایرانی ایئرپورٹس پر پروازیں معطل یا محدود ہو چکی ہیں، جس سے فوری انخلاء میں تاخیر کا امکان ہے۔
زمینی راستے بھی متاثر:
ایران-پاکستان سرحدی گزرگاہیں (تفتان بارڈر) پر بھی سخت سیکیورٹی اور ممکنہ بندش کے خدشات موجود ہیں۔
خوف و ہراس:
کئی زائرین اور عام شہری انٹرنیٹ و موبائل سہولت کی بندش، دھماکوں اور افواہوں کے سبب خوفزدہ اور غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
عوام سے اپیل:
حکومت نے ایران میں مقیم پاکستانیوں سے اپیل کی ہے کہ:
اپنے مقامی سفارتخانے یا قونصل خانے سے فوری رابطہ کریں
بلا ضرورت سفر سے گریز کریں
ہنگامی ہدایت پر عمل کریں
پاکستان میں موجود اہلِ خانہ اپنے پیاروں کی تفصیلات وزارتِ خارجہ سے شیئر کریں
ایران کی بگڑتی صورتِ حال کے باعث پاکستانی شہریوں کی حفاظت اور واپسی ایک فوری سفارتی اور انسانی ہمدردی کا مسئلہ بن چکا ہے۔
حکومتِ پاکستان اس حساس وقت میں اپنی ذمہ داری نبھانے کے لیے متحرک ہے، لیکن زمینی و فضائی حالات کی پیچیدگی اس مشن کو دشوار بنا رہی ہے۔