پاکستانی عوام پر مہنگائی کا ایک اور وار: موٹر سائیکلوں کی قیمتیں بلند ترین سطح پر.

یکم جولائی سے عوام پر مہنگائی کا ایک اور وار — پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں بھاری اضافہ نافذ العمل

پاکستان میں بڑھتی ہوئی مہنگائی اور معاشی عدم استحکام کے باعث عام شہری پہلے ہی شدید مالی دباؤ کا شکار ہے، اور اب موٹر سائیکل جیسی بنیادی سواری بھی عام آدمی کی پہنچ سے دور ہوتی جا رہی ہے۔ ملک کی معروف موٹر سائیکل ساز کمپنی ہونڈا اٹلس نے ایک بار پھر اپنی موٹر سائیکلوں کی قیمتوں میں اضافہ کر دیا ہے، جس کا اطلاق یکم جولائی سے ہو چکا ہے۔

یہ اضافہ ایسے وقت میں کیا گیا ہے جب عوام پہلے ہی پیٹرول، بجلی اور روزمرہ ضروریات کی اشیاء کی قیمتوں میں اضافے سے پریشان ہیں۔ ہونڈا کی موٹر سائیکلیں، جو کہ پاکستان میں سب سے زیادہ فروخت ہونے والی سواریوں میں شمار ہوتی ہیں، اب ان افراد کے لیے بھی مہنگی ہو گئی ہیں جو انہیں قسطوں پر خریدنے کی کوشش کرتے ہیں۔

اضافے کی تفصیلات
ہونڈا اٹلس کی مشہور ماڈلز، جیسے CD 70، CG 125، CB 150F سمیت دیگر ماڈلز کی قیمتوں میں 3 سے 9 ہزار روپے تک کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد ایک ہلکی پھلکی، ایندھن بچانے والی موٹر سائیکل بھی اب 1.6 لاکھ روپے سے اوپر کی ہو چکی ہے، جب کہ CG 125 اور اس سے بڑے ماڈلز کی قیمتیں 2.5 لاکھ سے تجاوز کر گئی ہیں۔

اس اضافے کی ممکنہ وجوہات
کمپنی کی جانب سے قیمتوں میں اضافے کی وجہ عالمی معاشی دباؤ، ڈالر کی قیمت میں اضافہ، درآمدی خام مال کی لاگت اور ٹیکسز کو قرار دیا جا رہا ہے۔ تاہم، کئی ماہرین اس بات پر بھی زور دے رہے ہیں کہ ان وجوہات کے باوجود قیمتوں میں اتنی تیزی سے اور بار بار اضافہ کمپنیوں کے منافع کو برقرار رکھنے کا ایک حربہ بن چکا ہے۔

عوامی ردِ عمل
سوشل میڈیا اور عوامی حلقوں میں اس فیصلے پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔ شہریوں کا کہنا ہے کہ:

“موٹر سائیکل ایک عام آدمی کی ضرورت ہے، لیکن اب یہ بھی خواب بنتی جا رہی ہے۔”
“تنخواہیں وہیں کی وہیں ہیں، لیکن ہر چیز آسمان پر جا رہی ہے۔”

موٹر سائیکلیں جو کبھی درمیانے طبقے کے لیے سب سے آسان اور سستی سواری سمجھی جاتی تھیں، اب وہ بھی ان کی پہنچ سے باہر ہو رہی ہیں۔ ہونڈا اٹلس کی جانب سے کیے گئے حالیہ اضافے نے معاشی طور پر دبے ہوئے عوام پر ایک اور بوجھ ڈال دیا ہے۔ حکومت کی خاموشی اور مارکیٹ میں مسابقت کی کمی نے صارفین کو بے بس کر دیا ہے، اور اب یہ سوال شدت سے اٹھ رہا ہے کہ آخر عام آدمی کب تک مہنگائی کے اس طوفان کو برداشت کرے گا؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں