“کیا اسرائیل اور ترکی یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام پر حکمرانی کا اختیار کس کے پاس ہونا چاہیے؟”

شام، جو کبھی مشرقِ وسطیٰ کی ایک خوبصورت اور ثقافتی ورثے سے مالامال ریاست ہوا کرتی تھی، آج بیرونی مداخلت اور طاقت کے کھیل کا شکار ہو چکی ہے۔ خانہ جنگی، دہشت گردی، بین الاقوامی سازشوں اور مفادات کی چکی میں پس کر شام کا وجود ایسے زخموں سے چور ہے جن کا بھرنا شاید آنے والے برسوں میں بھی ممکن نہ ہو۔

اس بحران میں دو علاقائی طاقتیں نمایاں طور پر اُبھر کر سامنے آئی ہیں: اسرائیل اور ترکی۔ دونوں ممالک نہ صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کے نام پر شام میں مداخلت کر رہے ہیں، بلکہ اب وہ یہ طے کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ شام پر حکمرانی کا حق کس کو حاصل ہے۔ شام کی سرزمین ان کے لیے ایک اسٹریٹجک میدان بن چکی ہے، جہاں وہ اپنے اثرورسوخ کے جھنڈے گاڑنا چاہتے ہیں، چاہے اس کی قیمت شامی عوام کی زندگیوں، خودمختاری اور آزادی کی صورت میں کیوں نہ ادا ہو۔

ترکی نے شروع دن سے ہی بشارالاسد حکومت کی مخالفت کی اور شامی اپوزیشن کی پشت پناہی کی۔ اسے خدشہ تھا کہ شام کے کرد علاقے ترکی کے اندر علیحدگی پسند تحریکوں کو تقویت دیں گے۔ اسی لیے ترکی نے شام کے شمالی حصوں میں عسکری مداخلت کی، اپنے فوجی اڈے بنائے، اور کئی علاقوں پر براہِ راست یا بالواسطہ کنٹرول حاصل کر لیا۔ اس عمل نے شام کی ارضی سالمیت کو مزید خطرے میں ڈال دیا۔

دوسری طرف اسرائیل کی شام میں دلچسپی کا مرکز ایران ہے۔ اسرائیل کو خدشہ ہے کہ شام میں ایران کا بڑھتا ہوا اثر، خاص طور پر حزب اللہ کی موجودگی، اس کے لیے ایک خطرناک محاذ کھول دے گا۔ اسی وجہ سے اسرائیل بارہا شامی سرزمین پر فضائی حملے کرتا رہا ہے، اور اب وہ یہ چاہتا ہے کہ شام میں ایک ایسی حکومت قائم ہو جو ایران سے دور ہو اور اس کے مفادات کے خلاف نہ ہو۔

یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب شام کے عوام مسلسل مصیبتوں کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہو چکے ہیں، لاکھوں بیرون ملک پناہ لینے پر مجبور ہو چکے ہیں، اور جو ملک میں بچے ہیں، وہ بھوک، بیماری، مہنگائی اور خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔ ان کے لیے یہ سوال بے معنی ہے کہ اسرائیل یا ترکی کون حکومت کو تسلیم کرتا ہے — ان کے لیے اصل مسئلہ صرف زندہ رہنے کا ہے۔

افسوسناک بات یہ ہے کہ عالمی برادری اس ساری صورتحال میں خاموش تماشائی بنی ہوئی ہے۔ اقوام متحدہ اور دیگر ادارے محض بیانات تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں۔ ایسے میں اسرائیل اور ترکی جیسے ممالک اپنی مرضی کے فیصلے مسلط کر رہے ہیں، اور شام جیسے کمزور ملک کے لیے اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرنا ایک خواب بنتا جا رہا ہے۔

آج اگر شامی قوم کو کوئی سوال درپیش ہے تو وہ یہ نہیں کہ بشارالاسد رہے یا نہ رہے، بلکہ یہ ہے کہ کیا انہیں اپنی زمین، اپنی شناخت اور اپنے فیصلے کرنے کا حق دوبارہ مل پائے گا یا نہیں؟ شام پر کسی اور کا فیصلہ مسلط کرنا، کسی بھی طور انصاف نہیں۔ یہ حق صرف شامی عوام کا ہے۔ دنیا کو یہ بات سمجھنی ہوگی کہ اگر کسی قوم کی تقدیر کا فیصلہ بندوق کے زور پر کیا جائے تو وہاں امن صرف ایک فریب ہوتا ہے — ایک دھواں جو لمحاتی طور پر نظروں کو دھندلا دیتا ہے، مگر حقیقت کبھی نہیں چھپتی۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں