ارشد چائے والے افغانی نکلا ، شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک،

سوشل میڈیا کی دنیا میں ایک نیا ستارہ بن کر ابھارنے والے ارشد خان، جنہیں 2016 میں ‘چائے والا’ کے لقب سے پہچانا گیا، اب ایک آئینی مسئلے کا سامنا کر رہے ہیں۔ لاہور ہائی کورٹ کے جج جسٹس جواد حسن نے ارشد خان کی درخواست پر وفاقی حکومت اور دیگر متعلقہ اداروں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ ارشد خان نے عدالت سے درخواست کی ہے کہ ان کے کمپیوٹرائزڈ قومی شناختی کارڈ (CNIC) اور پاسپورٹ کی بلاکنگ کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیا جائے۔

ارشد خان، جو مردان سے تعلق رکھتے ہیں، اس وقت شہرت کی بلندیوں تک پہنچے جب 2016 میں ایک فوٹوگرافر نے ان کی چائے بناتے ہوئے تصویر انسٹاگرام پر شیئر کی، جو فوراً وائرل ہو گئی۔ اس تصویر نے ارشد خان کو ‘چائے والا’ کے طور پر شہرت دی اور وہ سوشل میڈیا کے ایک مشہور شخصیت بن گئے۔ ان کی مقبولیت نے انہیں مختلف اشتہارات، فیشن شوز اور میڈیا پروگرامز میں شرکت کا موقع فراہم کیا۔

اب، ارشد خان نے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ نادرا اور ڈائریکٹوریٹ جنرل آف امیگریشن اینڈ پاسپورٹس نے ان کے شناختی دستاویزات بلاک کر دی ہیں، جو کہ ایک غیر قانونی اور غیر آئینی اقدام ہے۔ درخواست میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس اقدام نے ان کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزی کی ہے اور ان کی شناختی دستاویزات کی بلاکنگ کی کوئی قانونی یا آئینی جواز نہیں ہے۔ ارشد خان نے اپنے وکیل بیرسٹر عمر اعجاز گیلانی کے ذریعے عدالت سے رجوع کیا ہے اور اس بات پر زور دیا ہے کہ ان کی دستاویزات کو فوراً بحال کیا جائے۔

عدالت نے اس درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت اور دیگر جواب دہندگان کو نوٹس جاری کیے اور اس کیس کی مزید سماعت کے لیے تاریخ مقرر کر دی۔ لاہور ہائی کورٹ نے اس کیس کو آئینی نوعیت کا قرار دیا ہے اور اس کی اہمیت پر زور دیا ہے کہ یہ فیصلہ شہریوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کے حوالے سے ایک اہم قدم ہو گا۔ اس کیس کا فیصلہ یہ طے کرے گا کہ حکومت اور اس کے ادارے شہریوں کے حقوق کی خلاف ورزی کرتے ہوئے کس حد تک قانونی کارروائی کر سکتے ہیں۔

یہ کیس صرف ارشد خان کے لیے نہیں، بلکہ ہر شہری کے آئینی حقوق کی حفاظت کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ اس معاملے سے یہ سوال بھی اٹھتا ہے کہ کیا حکومت اور اس کے ادارے اپنے فیصلوں میں شفافیت اور قانونی اصولوں کا خیال رکھتے ہیں۔ اگر ایک شہری کا شناختی کارڈ اور پاسپورٹ بلاک کیا جا سکتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ دیگر شہریوں کے ساتھ بھی یہی سلوک ہو سکتا ہے۔ اس لیے یہ ضروری ہے کہ اس طرح کے فیصلے آئین کے مطابق ہوں اور شہریوں کے بنیادی حقوق کا تحفظ کیا جائے۔

ارشد خان کی درخواست ایک اہم آئینی مسئلے کو اجاگر کرتی ہے جس میں شہریوں کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی اہمیت کو سامنے رکھا گیا ہے۔ لاہور ہائی کورٹ کا فیصلہ نہ صرف ارشد خان کے لیے بلکہ پورے معاشرے کے لیے ایک سنگ میل ثابت ہو سکتا ہے، جس سے یہ واضح ہوگا کہ حکومت اور اس کے ادارے کس طرح اپنے اقدامات میں آئین کے دائرہ کار میں رہتے ہوئے شہریوں کے حقوق کا احترام کرتے ہیں۔

یہ کیس اس بات کا غماز ہے کہ سوشل میڈیا کے ستارے بننے والے افراد کو بھی قانون کی نظر میں مساوی سلوک کا حق حاصل ہے، اور ان کے حقوق کی پامالی کسی بھی صورت میں قابل قبول نہیں ہونی چاہی

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں