“جب 60 سالہ نعیم صافی روٹی کی تلاش میں خان یونس کی قطار میں کھڑے تھے، تو ان کے ہاتھ خالی اور آنکھیں نم ہو گئیں — غزہ میں زندگی، روٹی سے بھی سستی ہو گئی ہے!”

،.آج دوپہر جنوبی غزہ کے علاقے **خان یونس** میں سینکڑوں لوگ **روٹی کی ایک روٹی** کے لیے قطار میں کھڑے تھے۔ ان میں ایک **60 سالہ بزرگ نعیم صافی** بھی شامل تھے۔
وہ امید لے کر آئے کہ شاید آج کچھ مل جائے، لیکن…
> “جتنا کھانا لایا گیا تھا، وہ سب کے لیے کافی نہیں تھا،”
> نعیم صافی نے آنکھوں میں مایوسی اور دل میں بھوک لیے کہا۔
**غزہ کا بحران:**
* **ہزاروں خاندان** روزانہ کھانے کے منتظر ہوتے ہیں
* خوراک کی قلت، جنگ، اور محاصرہ ایک **انسانی المیہ** بن چکے ہیں
* اقوام متحدہ کے مطابق غزہ میں **80% سے زائد آبادی** کو روزمرہ خوراک تک مکمل رسائی نہیں
#### **عالمی برادری کی ناکامی:**
* امداد آتی ضرور ہے، لیکن **”قطرے” جتنی**
* نہ ہی نظام ہے، نہ ہی شفافیت، نہ ہی تسلسل
* خان یونس جیسے علاقوں میں کئی لوگ **بھوکے سوتے ہیں**، یا روٹی کے لیے زخمی ہوتے ہیں
#### **نعیم صافی کی کہانی، ہزاروں کی نمائندگی:**
* وہ صرف ایک فرد نہیں
* وہ ان **لاکھوں مظلوموں کی آواز** ہیں جو روز زندہ رہنے کی جنگ لڑتے ہیں
* ان کی **خالی جھولی** دراصل دنیا کے **ضمیر پر سوال** ہے
**غزہ میں بھوک، جنگ سے بڑی جنگ بن چکی ہے۔**
جہاں **روٹی بھی ہتھیار بن گئی ہے،** اور انسانیت صرف خبروں کی سرخیوں تک محدود رہ گئی ہے۔
نعیم صافی جیسے افراد ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ
> *”خالی ہاتھ لوٹنے والوں کی دعائیں زمین پر رہتی نہیں، آسمان تک ضرور جاتی ہیں۔”*