ایران پر حملہ – اصل کہانی کیا ہے؟ | حملے کی وجوہات، نتائج اور عالمی ردِعمل

13 جون 2025 کی صبح، اسرائیل نے ایران کے خلاف اچانک اور وسیع پیمانے پر فضائی کارروائی کی، جسے “آپریشن رائزنگ لائن” کا نام دیا گیا۔ یہ حملہ نہ صرف ایران کی جوہری تنصیبات بلکہ تہران میں اعلیٰ عسکری قیادت اور دیگر اہم دفاعی انفراسٹرکچر کو بھی نشانہ بنانے کے لیے کیا گیا۔ ان حملوں میں کروز میزائل، اسٹیلتھ جنگی طیارے اور ڈرونز استعمال کیے گئے، اور ایران کے اندر گہرائی تک ہدف بنائے گئے۔ یہ کارروائی کئی مہینوں سے جاری اس انٹیلیجنس مہم کا نتیجہ تھی، جس میں اسرائیل کا دعویٰ رہا کہ ایران خفیہ طور پر جوہری ہتھیار بنانے کے قریب پہنچ چکا ہے۔
حملے کے فوراً بعد ایران نے جوابی کارروائی کی۔ اس نے بیلسٹک میزائل اور “شاہد” نامی خودکش ڈرونز اسرائیلی سرزمین پر روانہ کیے، جن میں سے بیشتر کو اسرائیلی دفاعی نظاموں نے راستے میں ہی تباہ کر دیا۔ تاہم دونوں ممالک کے درمیان کھلی جنگ کے خدشات پیدا ہو گئے، اور خطے میں خوف و ہراس کی فضا پھیل گئی۔ تہران اور تل ابیب میں ایئر ڈیفنس فورسز کو ہائی الرٹ پر رکھا گیا جبکہ عالمی منڈیوں پر بھی اس کارروائی کے اثرات دیکھے گئے۔ تیل کی قیمتوں میں غیر معمولی اضافہ ہوا، اسٹاک مارکیٹس میں مندی آئی، اور عالمی رہنماؤں نے کشیدگی کم کرنے کی اپیلیں شروع کر دیں۔
امریکہ نے واضح کیا کہ وہ اس حملے میں براہ راست شریک نہیں تھا لیکن اسے پہلے سے علم تھا۔ اس بیان سے بین الاقوامی سطح پر اور بھی الجھن پیدا ہوئی کیونکہ کئی مبصرین کے نزدیک اسرائیل کو ایسا حملہ کرنے کے لیے امریکی خاموش حمایت حاصل تھی۔ یورپی ممالک اور اقوامِ متحدہ نے دونوں فریقین کو تحمل سے کام لینے اور سفارتی حل کی جانب واپس آنے کی اپیل کی، جب کہ روس اور چین نے اسے بین الاقوامی قانون کی سنگین خلاف ورزی قرار دیا۔ ایران نے اپنی خودمختاری پر حملہ قرار دیتے ہوئے عزم ظاہر کیا کہ وہ اس کا “مناسب جواب” دے گا۔
یہ حملہ محض دو ممالک کے درمیان محاذ آرائی نہیں بلکہ اس کے پیچھے کئی گہرے اسباب کارفرما ہیں: طاقت کا توازن، ایٹمی بالادستی کی دوڑ، اور جغرافیائی حکمت عملی کے وہ تقاضے جنہوں نے مشرقِ وسطیٰ کو عشروں سے ایک آتش فشاں بنا رکھا ہے۔ اب سوال یہ نہیں کہ حملہ کیوں ہوا، بلکہ یہ ہے کہ اس کے بعد دنیا کس طرف جائے گی۔ کیا یہ محض ایک انتباہی کارروائی تھی یا ایک طویل اور خونی جنگ کی شروعات؟ وقت ہی اس کا جواب دے گا، مگر فی الحال، دنیا کا سانس روکا ہوا ہے۔