ایاز صادق کا بڑا سیاسی اشارہ؟ امریکی مہمانوں کے عشائیے میں پی ٹی آئی وفد کو بھی شرکت کی دعوت دے دی گئی۔

پاکستان کی سیاست میں جہاں روز بروز تناؤ بڑھتا جا رہا ہے، وہیں کبھی کبھی ایسے لمحات بھی آتے ہیں جو امید دلاتے ہیں کہ شاید کوئی پل ایسا آ جائے جہاں اختلافات کو کچھ دیر کے لیے ایک طرف رکھ دیا جائے۔ ایسا ہی ایک لمحہ اُس وقت دیکھنے کو ملا جب قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے امریکی وفد کے اعزاز میں دیے گئے عشائیہ میں پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے وفد کو بھی شرکت کی دعوت دے دی۔

یہ محض ایک دعوت نہیں، بلکہ ایک مثبت اشارہ بھی تھا—شاید مفاہمت کی طرف ایک چھوٹا قدم، یا کم از کم سیاسی اداروں کے بیچ روابط کو دوبارہ بحال کرنے کی کوشش۔ ایسے وقت میں جب پی ٹی آئی اور دیگر سیاسی جماعتوں کے درمیان فاصلے نمایاں ہیں، اسپیکر کی جانب سے یہ دعوت یقیناً ایک قابلِ توجہ اشارہ ہے۔

امریکی وفد کا پاکستان آنا ایک اہم سفارتی موقع تھا۔ لیکن اس موقع پر تمام جماعتوں کو ایک جگہ اکٹھا دیکھنا اُس روایت کی جھلک دیتا ہے جو جمہوری معاشروں میں رائج ہوتی ہے—جہاں قومی مفاد کے لیے سیاسی اختلافات وقتی طور پر پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔

سیاسی کارکنوں اور عام شہریوں نے اس خبر پر ملا جلا ردِعمل دیا ہے۔ کچھ لوگ اسے ایک نیا آغاز سمجھ رہے ہیں، تو کچھ اسے محض “تصویری سیاست” قرار دے رہے ہیں۔ لیکن چاہے اس قدم کا اثر وقتی ہو یا طویل المدتی، اس کا وجود خود یہ ثابت کرتا ہے کہ دروازے ابھی مکمل طور پر بند نہیں ہوئے۔

ہم ایک ایسے وقت میں زندہ ہیں جب سیاست صرف ٹی وی مباحثوں اور عدالتوں تک محدود نہیں رہی، بلکہ عوامی جذبات سے جڑی ہوئی ہے۔ اس لیے جب کوئی قدم تعلقات کی بحالی کی طرف اٹھتا ہے، تو وہ صرف ایوانوں تک محدود نہیں رہتا—وہ عام پاکستانی کی امید بن جاتا ہے۔

تو کیا یہ دعوت محض ایک رسمی قدم تھا یا کسی بڑی مفاہمتی کوشش کا آغاز؟ یہ تو آنے والا وقت بتائے گا۔ لیکن ایک بات ضرور ہے: سیاسی دراڑوں کے درمیان اگر کوئی ایک بھی موقع ایسا ملے جہاں اختلافات کے بجائے بات چیت کی گنجائش ہو، تو اُسے ضائع نہیں جانا چاہیے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں