“بنگلہ دیش کا 1971 سے قبل کے اثاثوں کا 4.52 بلین ڈالر کا دعویٰ: پاکستان کے لیے نئی معاشی چیلنج”

بنگلہ دیش اور پاکستان کے درمیان 1971 کی علیحدگی کے بعد جو تاریخی، سیاسی اور جذباتی خلیج پیدا ہوئی، وہ وقت کے ساتھ کبھی مکمل طور پر نہیں پاٹی جا سکی۔ اب پانچ دہائیوں کے بعد بنگلہ دیش نے ایک اور سنگین مطالبہ سامنے رکھ دیا ہے: 4.52 بلین ڈالر کا باضابطہ حصہ، جو وہ کہتا ہے کہ اسے 1971 سے پہلے کے مشترکہ اثاثوں میں سے ملنا تھا۔ اس رقم میں پراویڈنٹ فنڈز، سیونگز، اور غیر ملکی امداد جیسے حساس مالی معاملات شامل ہیں۔
یہ مطالبہ کوئی نئی بات نہیں، بلکہ بنگلہ دیش کئی دہائیوں سے ان فنڈز کی بات کرتا رہا ہے، لیکن اب باضابطہ طور پر یہ معاملہ بین الاقوامی سطح پر اٹھانے کی تیاری ہو رہی ہے۔ یہ رقم محض کوئی کھاتوں کی گنتی نہیں، بلکہ اس کے ساتھ تاریخ، اعتماد، اور دو طرفہ تعلقات کی ایک طویل کہانی جڑی ہوئی ہے۔
پاکستان کے لیے یہ مطالبہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب ملک پہلے ہی معاشی بحران، قرضوں اور بڑھتی مہنگائی سے جوجھ رہا ہے۔ بنگلہ دیش کی جانب سے ایسے وقت میں مالی تقاضا کرنا بظاہر ایک اضافی دباؤ کے طور پر سامنے آیا ہے، جس پر عوامی اور سیاسی حلقوں میں مختلف آرا پائی جا رہی ہیں۔ کچھ اسے ماضی کا بند باب سمجھ کر نظر انداز کرنے کی بات کر رہے ہیں، تو کچھ اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنے کا مشورہ دے رہے ہیں تاکہ مزید تنازع سے بچا جا سکے۔
ادھر بنگلہ دیش کی قیادت کا کہنا ہے کہ یہ مطالبہ انصاف پر مبنی ہے اور اُن کے شہریوں کا مالی حق ہے، جسے اب مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ ان کا مؤقف ہے کہ جب دو ریاستیں الگ ہوتی ہیں تو اثاثوں کی تقسیم بھی ایک منصفانہ اصول کے تحت کی جانی چاہیے، اور اگر یہ اصول پامال ہو تو بات صرف پیسے کی نہیں بلکہ اصول کی رہ جاتی ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان اس دعوے کو تسلیم کرے گا؟ یا اسے ماضی کا ایک بھولا بسرا مسئلہ قرار دے کر پس پشت ڈال دے گا؟ اور کیا بنگلہ دیش اسے بین الاقوامی عدالت یا اداروں کے سامنے لے جا کر قانونی جنگ لڑے گا؟
یہ تمام سوالات آنے والے دنوں میں خطے کی سیاست اور سفارت کاری کا اہم حصہ بننے والے ہیں۔ لیکن ایک بات طے ہے: ماضی کبھی مکمل ماضی نہیں بنتا، خاص طور پر جب بات ہو 4.52 بلین ڈالر جیسے بڑے مطالبے کی۔