لاشیں کشمیر میں گریں، دنیا لرز گئی… لیکن ہزاروں لاشیں غزہ میں گریں، اور دنیا نے آنکھیں موند لیں۔”

کشمیر میں 26 سیاحوں کی ہلاکت پر بھارت میں جیسے طوفان برپا ہو گیا۔ میڈیا کے کیمروں نے مناظر کو آنسوؤں اور غصے میں ڈبو دیا، سرکاری ادارے حرکت میں آ گئے، سفارتی محاذ گرم ہو گیا، اور ایک لمحے کو یوں لگا کہ شاید یہ 26 جانیں پوری دنیا کا توازن ہلا دیں گی۔ تعلقات منقطع کرنے کی دھمکیاں، ویزے بند، فضائی راستے بند، تجارت پر پابندیاں — گویا کسی نے بھارت کی عزت نفس پر حملہ کر دیا ہو۔
مگر ایک لمحے کو نگاہ موڑ کر دیکھیں — فلسطین، غزہ، وہ سرزمین جہاں اب تک ایک لاکھ کے قریب لوگ قتل ہو چکے، ہزاروں بچے، عورتیں، بوڑھے جنہوں نے کبھی بندوق نہیں اٹھائی، جنہوں نے صرف زندہ رہنے کی کوشش کی — وہ سب صفحۂ ہستی سے مٹا دیے گئے۔ اسکول، اسپتال، مساجد، چرچ، مکانات — کچھ بھی محفوظ نہیں رہا۔ اور مجرم؟ معلوم۔ ان کے حمایتی؟ سب کو پتا۔ مگر آواز؟ خاموش۔ ردعمل؟ صفر۔ غیرت؟ گویا کسی کے ضمیر کی قبر پر بھی نہیں اتری۔
یہ تضاد صرف ریاستی رویے کا نہیں، انسانی ضمیر کے بانجھ پن کا بھی آئینہ دار ہے۔ کشمیر ہو یا غزہ، جان تو انسان کی ہے — لیکن افسوس، اب انسانی جان کی “ویلیو” اس کے مذہب، قومیت یا جغرافیے سے ناپی جاتی ہے۔
شاید ہمیں سب سے پہلے یہ طے کرنا ہو گا کہ انسانی دکھ کا کوئی عالمی معیار ہو۔ ورنہ انصاف بھی ایک مذاق ہی بن کر رہ جائے گا۔
کیا واقعی انسانیت اب صرف مخصوص جغرافیوں تک محدود ہو گئی ہے؟