کیتھرین پیریز شکدام: وہ جاسوسہ جس نے ایران کے دل میں نقب لگائی

یہ ایک داستان ہے… پردے کے پیچھے کھیلنے والے کردار کی۔
ایک چہرہ جو محبت، عقیدت اور نظریاتی وفاداری کا نقاب اوڑھے ہوئے تھا…
لیکن درحقیقت وہ ایک خاموش جنگ لڑ رہی تھی — ایران کے خلاف، اسرائیل کے لیے۔
آغاز: ایک مسلمان، انقلابی، اور نظریاتی خاتون؟
کیتھرین پیریز شکدام، ایک فرانسیسی نژاد خاتون، جو یہودی پس منظر رکھتی تھی۔
اس نے اسلام قبول کیا، علانیہ تشیع اختیار کی، اور ایران کے اسلامی انقلاب کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیے۔
وہ صرف ایک مسلمان نہیں بنی — بلکہ نظریاتی شیعہ بن کر سامنے آئی۔
اس کی تحریریں ایران کے اعلیٰ ترین رہنما، آیت اللہ خامنہ ای کی ویب سائٹ پر شائع ہوئیں۔
وہ ایران میں معزز مہمان بنی، اسے صحافی، لکھاری اور تھنکر کے طور پر سر آنکھوں پر بٹھایا گیا۔
ایک ذہین سازش: سچ کی آڑ میں جھوٹ کا کھیل
اس کے اصل ارادے کچھ اور تھے…
اس نے سیاسی حلقوں میں رسائی حاصل کی،
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے ساتھ گہرے روابط بنائے،
حتیٰ کہ صدر ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقات کی۔
لیکن اس کی سب سے خطرناک رسائی وہاں تھی جہاں دنیا کا کوئی جاسوس نہیں پہنچ سکتا:
ایرانی افسران، سائنسدانوں، اور اعلیٰ حکام کی بیویوں کے حلقے۔
خواتین کی زبان سے نکلا زہر
کیتھرین نے ان بیویوں سے دوستی کی، ان کا اعتماد جیتا۔
وہ محفلیں جہاں “سہیلے” راز کھول بیٹھتی ہیں —
وہ محفلیں کیتھرین کے لیے سونے کی کان ثابت ہوئیں۔
وہ باتیں جو بے ضرر لگتی تھیں:
شوہر کہاں کام کرتے ہیں، سفر پر کب جا رہے ہیں، کن لوگوں سے ملاقات ہے…
یہ سب کیتھرین ریکارڈ کرتی گئی،
اور موساد کو بھیجتی رہی۔
نتیجہ: خاموشی سے ہونے والی ہلاکتیں
انہی معلومات کی بنیاد پر کئی حساس ایرانی شخصیات کو ہدف بنا کر قتل کیا گیا۔
یہ وہ قتل تھے جن کی بنیاد کسی جاسوس سیٹلائٹ یا خفیہ مشن نے نہیں رکھی —
بلکہ ایک بیوی کی زبان سے نکلی “عام سی بات” نے رکھی تھی۔
انکشاف اور فرار
جب ایرانی اداروں کو شک ہوا،
تو کیتھرین پہلے ہی ایران چھوڑ چکی تھی۔
بغیر کسی گرفتاری، بغیر کسی رکاوٹ — وہ جا چکی تھی۔
لیکن جاتے جاتے وہ زخم دے چکی تھی،
جن کی گہرائی آج بھی ایرانی اسٹیبلشمنٹ محسوس کر رہی ہے۔
یہ صرف کیتھرین کی کہانی نہیں… یہ ایک وارننگ ہے
یہ ایک ریاستی سیکیورٹی کی ناکامی ہے —
لیکن صرف ایران کے لیے نہیں۔
آج کی جنگیں محاذوں پر نہیں،
ذہنوں، رشتوں، اور اعتماد پر لڑی جا رہی ہیں۔
کیا کوئی اور “کیتھرین” آج کسی اور ملک کے اندر گھسی ہوئی ہے؟
کیا ہم نے اپنی ذاتی باتوں، تعلقات، اور جذبات کو بھی سیکیورٹی سمجھنا سیکھا ہے؟
یا ہم اب بھی سمجھتے ہیں کہ “یہ تو صرف باتیں تھیں”…؟