چیئر مین پبلک سروس کمیشن آزاد کشمیر نے عہدے سے استعفیٰ دیدیا

آزاد کشمیر میں ایک اہم انتظامی پیش رفت سامنے آئی ہے جہاں چیئرمین پبلک سروس کمیشن نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ یہ استعفیٰ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب کمیشن کے مختلف فیصلے اور کارکردگی پہلے ہی عوامی اور سیاسی حلقوں میں زیرِ بحث تھے۔ استعفے کی وجوہات سے متعلق تاحال کوئی سرکاری بیان جاری نہیں کیا گیا، تاہم ذرائع کا کہنا ہے کہ حالیہ دنوں میں کمیشن کو مختلف معاملات پر شدید دباؤ کا سامنا تھا، جس کے باعث چیئرمین نے اپنے عہدے سے الگ ہونے کا فیصلہ کیا۔
چیئرمین پبلک سروس کمیشن کا شمار ان اعلیٰ افسران میں ہوتا ہے جو ریاست کے اندر شفاف بھرتیوں اور میرٹ کے قیام کے لیے کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ ان کا استعفیٰ نہ صرف ادارے کے اندرونی معاملات کی نشاندہی کرتا ہے بلکہ آئندہ بھرتیوں، انٹرویوز اور امتحانات کے عمل پر بھی اثر ڈال سکتا ہے۔ یہ استعفیٰ ایسے وقت پر آیا ہے جب کئی اہم آسامیوں پر بھرتی کا عمل جاری تھا اور ہزاروں امیدوار ان نتائج کے منتظر تھے۔
ذرائع کا یہ بھی کہنا ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے کمیشن پر سیاسی مداخلت اور اقربا پروری کے الزامات عائد کیے جا رہے تھے، جنہوں نے ادارے کی ساکھ کو متاثر کیا۔ چیئرمین نے ان تمام عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے اپنے ضمیر کے مطابق یہ قدم اٹھایا تاکہ ادارے پر لگنے والے الزامات اور تنقید کا بوجھ ذاتی حیثیت میں نہ اٹھانا پڑے۔ بعض اطلاعات کے مطابق وہ جلد ہی اپنے استعفے کی وجوہات پر روشنی ڈالنے کے لیے میڈیا سے بھی گفتگو کر سکتے ہیں۔
ریاستی حکومت کی جانب سے فوری طور پر ان کے استعفے کی منظوری یا ردعمل سامنے نہیں آیا، تاہم اس پیش رفت نے حکومتی حلقوں میں بھی ہلچل مچا دی ہے۔ عوامی حلقوں میں اس حوالے سے ملی جلی آراء پائی جاتی ہیں، کچھ افراد چیئرمین کے اس فیصلے کو جرات مندانہ قرار دے رہے ہیں جبکہ بعض حلقے اسے نظام سے مایوسی کی علامت سمجھتے ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس اہم عہدے پر نئے چیئرمین کی تقرری کے لیے کیا طریقہ کار اپناتی ہے اور کیا واقعی مستقبل میں پبلک سروس کمیشن کو ایک غیر جانبدار اور شفاف ادارہ بنانے کے لیے کوئی عملی قدم اٹھایا جاتا ہے یا یہ استعفیٰ بھی محض ایک رسمی پیش رفت بن کر رہ جائے گا۔ بہرحال، اس فیصلے نے آزاد کشمیر کی بیوروکریسی میں ایک نئی بحث کو جنم دے دیا ہے، جس کے اثرات مستقبل قریب میں مزید واضح ہوں گے۔