“غزہ میں بچوں کی چیخیں گونج رہی ہیں، اور ڈاکٹر وکٹوریا کے پاس صرف ایک نشتر بچا ہے…”

غزہ کی سرزمین پر انسانیت دم توڑ رہی ہے، اور اس کی گواہی دے رہی ہیں وہ آنکھیں جنہوں نے موت کو قریب سے دیکھا ہے — یہ آنکھیں ڈاکٹر وکٹوریا روز کی ہیں، جو برطانیہ سے تعلق رکھنے والی ایک ماہر سرجن ہیں اور اس وقت محصور غزہ میں زخمیوں کا علاج کر رہی ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ اسپتال اس حد تک تباہ ہو چکے ہیں کہ معمولی جراحی کے لیے درکار بنیادی اوزار، جیسے نشتر، تک دستیاب نہیں۔ اب وہ صرف ایک ہی سائز کے بچے ہوئے نشتر استعمال کر رہی ہیں، جو ہر قسم کی سرجری کے لیے موزوں نہیں۔ یہ صورتحال صرف وسائل کی کمی نہیں، بلکہ ایک مکمل انسانی المیہ ہے۔
نشہ آور دوائیں، جو مریض کو بے ہوشی میں لے جاتی ہیں تاکہ تکلیف نہ ہو — وہ اب ختم ہو چکی ہیں۔ ڈاکٹرز مجبور ہیں کہ جراحی کے دوران مریض کو ہاتھوں سے تھام کر رکھتے ہیں، کیونکہ بے ہوشی کی سہولت موجود نہیں۔ بعض اوقات مریض کو ہوش میں رکھتے ہوئے آپریشن کرنا پڑتا ہے۔ ڈاکٹر وکٹوریا کہتی ہیں: *”یہ واقعی ایک وحشیانہ صورتحال ہے۔”*
گزشتہ روز انہوں نے خان یونس کے ایک اسپتال میں 10 مریضوں کی سرجری کی۔ دن کی شروعات ایک تین سالہ بچے سے کی، جس کا 45 فیصد جسم جھلس چکا تھا — وجہ تھا ایک دھماکہ۔ اس کے بعد ایک چار سالہ بچی کا علاج کیا، جس کا ہاتھ ضائع ہو چکا تھا۔ ان کے تمام مریض یا تو جھلس چکے تھے یا ان کے جسمانی اعضا تباہ ہو چکے تھے، اور ان میں نصف سے زیادہ کی عمریں دس سال سے کم تھیں۔
یہ حالات کسی فلمی منظر کا حصہ نہیں، بلکہ آج کی حقیقت ہیں — ایک ایسی حقیقت، جو پوری دنیا کو جھنجھوڑنے کے لیے کافی ہونی چاہیے۔
*جب تک ہم خاموش رہیں گے، تب تک غزہ میں درد چیختا رہے گا…*