“چین کا دوٹوک الزام: یوکرین جنگ کی چنگاری امریکہ نے لگائی، روس نہیں!”

“یوکرینی جوابی وار: روس کے 40 جنگی جہاز تباہ، فضائی برتری پر کاری ضرب!”

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے حالیہ اجلاس میں چین نے روس اور یوکرین کے درمیان جاری جنگ کی اصل ذمہ داری امریکہ پر عائد کرتے ہوئے ایک واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کیا۔ چینی نمائندے نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ بحران کی جڑ نیٹو کی جارحانہ توسیع اور مشرقی یورپ میں امریکی مداخلت ہے، جس نے خطے کو غیر مستحکم کیا اور بالآخر جنگ کو جنم دیا۔

چین کے مطابق، امریکہ اور اس کے مغربی اتحادیوں نے برسوں سے روس کے گرد فوجی دباؤ بڑھایا، جس نے روس کو دفاعی اقدامات پر مجبور کر دیا۔ چینی مندوب نے کہا:

“امن کی ضمانت طاقت کے توازن سے نہیں بلکہ باہمی احترام، مذاکرات اور عدم مداخلت کے اصولوں سے ملتی ہے۔”

چین کا یہ مؤقف نہ صرف روس کی پوزیشن کو سفارتی جواز فراہم کرتا ہے بلکہ مغربی بیانیے کو بھی چیلنج کرتا ہے، جس میں جنگ کا الزام مکمل طور پر روس پر عائد کیا جاتا رہا ہے۔
یہ پہلا موقع نہیں کہ چین نے امریکہ پر تنقید کی ہو، لیکن اقوام متحدہ جیسے عالمی فورم پر اتنی کھلی تنقید دنیا کو بتا رہی ہے کہ عالمی طاقتوں کی صف بندی واضح ہوتی جا رہی ہے۔

تجزیہ کاروں کے مطابق، چین کا یہ بیان عالمی سفارت کاری میں ایک نیا توازن پیدا کر سکتا ہے، جہاں روس کو مکمل تنہائی کا سامنا نہیں رہے گا، اور چین جیسے اہم ملک کی حمایت اسے اسٹریٹجک فائدہ دے سکتی ہے۔

دوسری طرف، مغربی دنیا — خاص طور پر امریکہ اور نیٹو — چین کے اس مؤقف کو غیر ذمے دارانہ اور جانبدار قرار دے رہے ہیں، اور کہتے ہیں کہ اس سے جنگ بندی کی کوششوں کو نقصان پہنچے گا۔

یہ سفارتی کشمکش اس بات کا اشارہ ہے کہ جنگ اب صرف میدان میں نہیں بلکہ اقوام متحدہ جیسے فورمز پر بھی لڑی جا رہی ہے، اور ہر ملک اپنے بیانیے کو عالمی سطح پر غالب کرنے کی کوشش میں ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں