چین کا نیا ’بلیک آؤٹ بم‘ دشمن کی روشنیوں کو اندھیرے میں بدلنے والا خاموش مگر خطرناک ہتھیار ہے۔

چین نے حال ہی میں ایک ایسا انقلابی دفاعی ہتھیار تیار کرنے کا اعلان کیا ہے جسے ’’بلیک آؤٹ بم‘‘ (Blackout Bomb) کہا جا رہا ہے۔ اس بم کی خاص بات یہ ہے کہ یہ دشمن کے کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم اور توانائی کے نظام کو نشانہ بنا کر انہیں مکمل طور پر مفلوج کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے — وہ بھی بغیر کسی براہِ راست جانی نقصان کے۔

■ ٹیکنالوجی کا کمال یا مستقبل کی جنگ؟
رپورٹ کے مطابق، جو سب سے پہلے ’’ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ‘‘ نے شائع کی، یہ بم غالباً الیکٹرو میگنیٹک پلس (EMP) یا مائیکرو ویو پلس ٹیکنالوجی پر مبنی ہے۔ ایسی ٹیکنالوجی دشمن کے انفراسٹرکچر میں موجود ہر قسم کے برقی و الیکٹرانک آلات — جیسے پاور گرڈز، رڈارز، کمیونیکیشن سسٹمز، حتیٰ کہ دفاعی میزائل شیلڈز تک — کو ناکارہ بنا دیتی ہے۔

EMP ہتھیار سب سے پہلے امریکہ نے 1960 کی دہائی میں ٹیسٹ کیے تھے، مگر چین کی یہ نئی کامیابی اس ٹیکنالوجی کو عملی جنگی صورت میں اپنانے کی طرف بڑا قدم سمجھی جا رہی ہے۔

■ روایتی جنگ کا خاتمہ؟
چین کا ’’بلیک آؤٹ بم‘‘ نہ صرف فزیکل تباہی سے اجتناب کرتا ہے بلکہ دشمن کو اندھیرے، الجھن اور بے بسی کے عالم میں چھوڑ دیتا ہے۔ جب کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹمز بند ہو جائیں، بجلی غائب ہو جائے، اور کمیونیکیشن نیٹ ورک تباہ ہو جائے تو کوئی بھی فوج چاہے کتنی ہی طاقتور ہو، اس کی افادیت صفر رہ جاتی ہے۔

یہ حکمت عملی جدید جنگوں میں “Non-Kinetic Warfare” کے تصور کو فروغ دیتی ہے، جہاں دشمن کی صلاحیت کو تباہ کیے بغیر، اس کا نظام زندگی اور جنگی ڈھانچہ غیر فعال کیا جا سکتا ہے۔

■ عالمی ردِعمل اور خطرات
امریکی دفاعی ماہرین اور جاپانی تجزیہ نگاروں نے اس ہتھیار کو “Game Changer” قرار دیا ہے۔ مغربی ممالک اس پیش رفت پر شدید تشویش میں مبتلا ہیں کیونکہ یہ ہتھیار نیٹو کے دفاعی نظام کو بھی متاثر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، خاص طور پر اگر اسے خلائی یا فضائی پلیٹ فارمز سے لانچ کیا جائے۔

روس، امریکہ اور اسرائیل بھی پہلے سے EMP یا ہائی پاورڈ مائیکرو ویو ہتھیاروں پر تحقیق کر رہے ہیں، مگر چین نے جس خاموشی سے اسے عملی صورت دی ہے، وہ اس کی دفاعی پالیسی کی جارحانہ ذہنیت کو ظاہر کرتا ہے۔

■ سویلین انفراسٹرکچر بھی خطرے میں؟
سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ اگر یہ ہتھیار جنگ میں استعمال ہوتا ہے، تو کیا یہ صرف ملٹری انفراسٹرکچر تک محدود رہے گا؟ ماہرین کہتے ہیں کہ اس قسم کے ہتھیاروں سے سویلین پاور گرڈز، اسپتال، ایئرپورٹس، موبائل نیٹ ورکس، اور واٹر سپلائی سسٹمز بھی متاثر ہو سکتے ہیں۔ یعنی دشمن ملک کے عام شہری بھی شدید متاثر ہوں گے، جو کہ بین الاقوامی جنگی قوانین کے تحت ایک خطرناک حد سمجھی جاتی ہے۔

■ پاکستان، بھارت اور خطے کی صورتحال
جنوبی ایشیا کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پیش رفت پاکستان اور بھارت دونوں کے لیے نیا سیکیورٹی چیلنج ہے۔ پاکستان کو اپنی پاور گرڈز، ڈیفنس کمیونیکیشنز، اور نیٹ ورک سیکیورٹی کو ازسرِنو محفوظ بنانا پڑے گا۔ بھارت بھی ممکنہ طور پر چین کی اس ترقی کا توڑ نکالنے کے لیے ہنگامی اقدامات کرے گا۔

■ مستقبل کی جنگ کی ایک جھلک
بلیک آؤٹ بم ایک علامت ہے کہ دنیا جنگ کے ایک نئے دور میں داخل ہو رہی ہے — جہاں سائبر، الیکٹرانک، اور انفارمیشن وارفیئر میدانِ جنگ کا اصل چہرہ ہوں گے۔ توپ، ٹینک، اور میزائل سے زیادہ اہمیت نیٹ ورک، بجلی اور ڈیجیٹل سسٹمز کو حاصل ہوگی۔
چین کا بلیک آؤٹ بم صرف ایک ہتھیار نہیں، بلکہ جنگی حکمت عملی میں انقلاب ہے۔ اب سوال یہ ہے کہ دنیا کے باقی ممالک — خصوصاً ترقی پذیر ریاستیں — کیا اس خطرے کا ادراک رکھتی ہیں؟ اور اگر ہاں، تو اس کا توڑ کیسے نکالا جائے گا؟

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں