جب عوام پس رہی ہو تو عدالتیں بند نہیں ہو سکتیں!” – عدالتی چھٹیوں کے فرسودہ نظام پر سوال اٹھاتا وقت.

پاکستان میں عدالتوں کا گرمیوں میں دو ماہ تک بند رہنا ایک ایسا نوآبادیاتی ورثہ ہے جس نے آج کے انصاف کے نظام کو سست، پیچیدہ اور عوام دشمن بنا دیا ہے۔ یہ نظام اس وقت شروع ہوا جب برطانوی ججز برصغیر کی گرمی سے بچنے کے لیے انگلینڈ جایا کرتے تھے۔ لیکن آج نہ تو وہ دور ہے، نہ وہ ضرورت، اور نہ ہی عوام کے مسائل میں کوئی کمی ہے۔
⚖️ عدالتی چھٹیوں کا نقصان:
زیر التوا مقدمات کی تعداد لاکھوں میں ہے، لیکن دو ماہ تک عدالتیں مکمل طور پر بند رہتی ہیں۔
عام سائل، جو مہینوں سے تاریخوں پر تاریخیں بھگت رہا ہوتا ہے، اسے مزید انتظار کی سولی پر چڑھا دیا جاتا ہے۔
فیملی، کرمنل، سویل، لیبر اور دیگر کیسز میں انصاف کی تاخیر دراصل انصاف سے انکار کے مترادف ہے۔
🔁 وقت کے ساتھ نظام بدلے تو انصاف زندہ رہے:
دنیا کی بیشتر عدالتیں سال بھر کام کرتی ہیں، یا چھٹیاں روٹیشن کے ذریعے دیتی ہیں تاکہ نظام رکا نہ رہے۔
پاکستان میں بھی “سمر کورٹس” یا “ویڈیو لنک سماعتوں” جیسے ماڈلز اپنائے جا سکتے ہیں۔
✅ اصلاحات کی ضرورت:
عدالتی نظام کو 365 دن چلانے کی پالیسی پر غور کیا جائے۔
ججز اور عملے کو ریلیف دینے کے ساتھ ساتھ عوام کو ریلیف دینا بھی ضروری ہے۔
بار اور بینچ کو مل کر قانون میں ایسی ترامیم لانی ہوں گی جو نظام کو عوامی خدمت کے قریب لائیں۔
جب غریب سائل گرمی میں پسینے میں شرابور، دروازے بند دیکھ کر واپس لوٹتا ہے، تب “انصاف میں تاخیر انصاف سے انکار ہے” کا مطلب بہت واضح ہو جاتا ہے۔