بلوچستان میں افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز، ڈیڈلائن ختم

بلوچستان حکومت کی جانب سے مقرر کردہ مہاجرین کی رجسٹریشن اور قانونی حیثیت کی تصدیق کے لیے دی گئی ڈیڈلائن ختم ہو گئی ہے، جس کے بعد صوبے میں موجود تمام افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا عمل شروع کر دیا گیا ہے۔
❖ کریک ڈاؤن کی وجوہات اور حکومتی موقف
سرکاری ذرائع کے مطابق، یہ اقدام صوبے میں امن و امان کو بہتر بنانے، غیر قانونی آبادیوں کو کنٹرول کرنے، اور افغان مہاجرین کی غیر قانونی موجودگی کو ختم کرنے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔ حکومت کا موقف ہے کہ:
-
جو مہاجرین رجسٹریشن کے عمل میں حصہ نہیں لیں گے، ان کے خلاف سخت قانونی کارروائی کی جائے گی۔
-
غیر رجسٹرڈ افغان مہاجرین کو صوبے سے بے دخل کیا جا سکتا ہے۔
❖ مہاجرین پر اثرات اور خدشات
کریک ڈاؤن سے ہزاروں افغان مہاجرین متاثر ہو سکتے ہیں جو بلوچستان کے مختلف شہروں اور دیہی علاقوں میں بسے ہوئے ہیں۔ ماہرین اور انسانی حقوق کے کارکنان خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ:
-
بے دخلی کے عمل سے مہاجرین کی زندگیوں کو شدید خطرات لاحق ہوں گے۔
-
بہت سے مہاجرین بے گھر ہو سکتے ہیں اور انسانی ہمدردی کے مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
-
بچوں، خواتین اور بزرگوں کی صورتحال خاص طور پر نازک ہو گی۔
❖ مقامی اور بین الاقوامی ردعمل
کریک ڈاؤن کے آغاز پر مقامی کمیونٹیز میں خوف اور بے چینی پائی جاتی ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں اس اقدام کی سخت الفاظ میں مذمت کر رہی ہیں اور حکومت سے مہاجرین کے حقوق کا احترام کرنے کا مطالبہ کر رہی ہیں۔
عالمی ادارے بھی صورتحال پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں اور پاکستان سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ افغان مہاجرین کے تحفظ کو یقینی بنائے اور کسی بھی ممکنہ انسانی بحران سے بچاؤ کرے۔
بلوچستان میں افغان مہاجرین کے خلاف شروع ہونے والا یہ کریک ڈاؤن نہ صرف صوبے کی سیاسی و سماجی صورتحال کو متاثر کرے گا بلکہ انسانی حقوق کے حوالے سے بھی ایک حساس مسئلہ بن کر ابھر رہا ہے۔ اس عمل میں شفافیت، ہمدردی اور بین الاقوامی قوانین کا احترام انتہائی ضروری ہے تاکہ کسی قسم کا انسانی المیہ نہ جنم لے۔