“لاشیں ہی لاشیں، ہر طرف قیامت صغریٰ کا منظر – بونیر سیلاب نے زندگی کو موت میں بدل ڈالا”

خیبر پختونخواہ کے ضلع بونیر میں حالیہ سیلاب نے جو تباہی مچائی، اس کے بعد کا منظر ناقابلِ بیان ہے۔ ہر طرف لاشیں بکھری ہوئی ہیں، لوگ اپنے پیاروں کی لاشیں پانی، کیچڑ اور ملبے سے نکالنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ یہ قیامت خیز منظر دل دہلا دینے والا ہے – مائیں اپنے بچوں کی لاشیں گود میں اٹھائے بیٹھی ہیں، باپ اپنی بیٹیوں کو دفنانے کے لیے جگہ ڈھونڈ رہے ہیں، اور بھائی اپنے بھائیوں کے لاپتا وجود کو پکار رہے ہیں۔
عینی شاہدین کے مطابق، سیلاب اس قدر اچانک آیا کہ لوگوں کو سنبھلنے کا موقع ہی نہ ملا۔ کئی خاندان مکمل طور پر ختم ہو گئے۔ گھروں کے ملبے کے نیچے دبی لاشیں نکالنے کے لیے مقامی افراد اور ریسکیو ٹیمیں ہاتھوں سے مٹی ہٹا رہی ہیں، کیونکہ مشینری یا امدادی وسائل ناکافی ہیں۔
متاثرہ علاقوں میں فضا سوگوار ہے۔ ہر گلی، ہر محلے میں جنازے اٹھ رہے ہیں۔ اسپتال زخمیوں سے بھر چکے ہیں جبکہ مرنے والوں کی تدفین کے لیے قبریں بھی کم پڑنے لگی ہیں۔
سیلاب زدگان کا شکوہ ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے فوری رسپانس دینے میں ناکام رہے۔ اگر بروقت وارننگ اور ریسکیو سسٹم فعال ہوتا تو شاید اتنا بڑا جانی نقصان نہ ہوتا۔
عوامی مطالبہ:
حکومت فوری طور پر ریسکیو، ریلیف اور ری ہیبلیٹیشن کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے۔
جاں بحق افراد کے ورثاء کو مالی امداد کے ساتھ نفسیاتی و قانونی سپورٹ بھی دی جائے۔
آئندہ کے لیے سیلاب سے بچاؤ کے مؤثر انتظامات کیے جائیں، تاکہ انسانی جانوں کا تحفظ ممکن ہو۔
بونیر کا یہ المیہ ایک لمحۂ فکریہ ہے، جو سوال چھوڑ گیا ہے: “کیا ہم بحیثیت ریاست و قوم قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار ہیں؟”