“جموں و کشمیر میں سابق فوجیوں کی سکیورٹی گارڈ تعیناتی، کشمیری عوام میں تشویش کی لہر!”

بھارتی حکومت نے اپنے زیر انتظام جموں و کشمیر میں ایک نیا حفاظتی منصوبہ متعارف کروایا ہے جس کے تحت 4000 سابق فوجیوں کو سکیورٹی گارڈز کی حیثیت سے تعینات کیا جائے گا۔ اس منصوبے کا اعلان پاک بھارت جنگ بندی معاہدے کے بعد سامنے آیا ہے، جسے کئی تجزیہ نگار طاقت کے نئے مظاہرے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
بھارتی حکومت کے مطابق، ان میں سے 435 سابق فوجیوں کے پاس پہلے سے لائسنس یافتہ ذاتی ہتھیار بھی موجود ہیں، اور یہ اقدام مقامی سکیورٹی کے مسائل سے بہتر طریقے سے نمٹنے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ تاہم، یہ منصوبہ کشمیری عوام میں گہری تشویش اور بے چینی کا باعث بنا ہوا ہے، جو پہلے ہی بھارتی فوج کی بھاری موجودگی اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خوف میں مبتلا ہیں۔
جموں و کشمیر میں پہلے سے ہی پانچ لاکھ سے زائد بھارتی فوجی تعینات ہیں، اور اس نئے اقدام سے خطے میں کشیدگی میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔ سابق فوجیوں کی تعیناتی، چاہے وہ سویلین کردار میں ہوں، فوجی پس منظر اور مسلح حیثیت کی وجہ سے ایک منظم نگرانی اور دباؤ کے نظام کی تشکیل کر سکتی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ یہ قدم کشمیر میں عسکری رنگ کو مزید گہرا کرنے کی کوشش ہے، جہاں شہری آزادیوں پر پہلے ہی متعدد پابندیاں عائد ہیں۔ بین الاقوامی مبصرین بھی اسے کشمیری عوام کی آزادی کی تحریک کو دبانے کی نئی حکمت عملی قرار دے رہے ہیں، جو عسکریت پسندی کو سول اداروں کے ذریعے بھی بڑھا سکتی ہے۔
یہ سوال اہم ہے کہ جب کشمیر دنیا کے سب سے زیادہ عسکریت زدہ علاقوں میں شمار ہوتا ہے، تو سابق فوجیوں کی تعیناتی کا اصل مقصد کیا ہے؟ کیا یہ واقعی امن و امان کی بہتری کی کوشش ہے یا پھر کشمیری سڑکوں پر مزید بندوقیں لانے کا نیا جواز؟
وقت کے ساتھ اس کے جوابات سامنے آئیں گے، لیکن فی الحال کشمیر کی فضا خوف، بے یقینی اور اضطراب سے بھر چکی ہے۔