ڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کا حالیہ دورہ، جو ان کی دوسری مدتِ صدارت کا پہلا بین الاقوامی سفر

ڈونلڈ ٹرمپ کا سعودی عرب کا حالیہ دورہ، جو ان کی دوسری مدتِ صدارت کا پہلا بین الاقوامی سفر ہے، سفارتی اور اقتصادی دونوں لحاظ سے غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ ریاض میں ان کا شاندار استقبال کیا گیا، جہاں سعودی ولی عہد محمد بن سلمان نے انہیں خوش آمدید کہا۔ اس دورے کا بنیادی مقصد امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان اقتصادی اور دفاعی تعلقات کو مزید مضبوط بنانا ہے۔
🇺🇸🇸🇦 ٹرمپ کا سعودی عرب کا دورہ: اقتصادی اور دفاعی معاہدے
صدر ٹرمپ نے سعودی عرب کے ساتھ کئی اہم معاہدے کیے، جن میں توانائی، مصنوعی ذہانت، مینوفیکچرنگ، اور دفاع کے شعبوں میں تعاون شامل ہے۔ ایک ممکنہ \$100 بلین کے اسلحہ کے معاہدے پر بھی بات چیت ہوئی، جو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی تعلقات کو نئی بلندیوں تک لے جا سکتا ہے۔ ([Time][1])
کاروباری مفادات اور سرمایہ کاری
ٹرمپ کے اس دورے کا ایک اہم پہلو سعودی عرب میں امریکی سرمایہ کاری کو فروغ دینا ہے۔ سعودی ولی عہد نے امریکہ میں \$600 بلین کی سرمایہ کاری کا وعدہ کیا ہے، جو اگلے چار سالوں میں مکمل کی جائے گی۔ اس کے علاوہ، ٹرمپ آرگنائزیشن کے خلیج میں متعدد منصوبے ہیں، جن میں جدہ میں \$530 ملین کا ٹاور، دوحہ کے قریب نیا گولف ریزورٹ، اور دبئی میں \$1 بلین کا ٹرمپ ٹاور شامل ہیں۔
علاقائی سیاست اور ایران
اس دورے کے دوران، ٹرمپ نے خلیجی تعاون کونسل کے اجلاس میں شرکت کی، جہاں غزہ کی جنگ اور ایران کے ساتھ ممکنہ جوہری معاہدے پر بات چیت ہوئی۔ ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف سخت موقف اپنایا ہے، اور سعودی عرب کے ساتھ مل کر خطے میں ایرانی اثر و رسوخ کو کم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔
وژن 2030 اور اقتصادی اصلاحات
سعودی عرب کے وژن 2030 کے تحت، ملک کی معیشت کو تیل پر انحصار سے ہٹا کر متنوع بنایا جا رہا ہے۔ ٹرمپ کا دورہ اس وژن کی حمایت میں ہے، اور دونوں ممالک کے درمیان اقتصادی تعاون کو فروغ دینے کے لیے متعدد منصوبوں پر بات چیت ہوئی ہے۔
ٹرمپ کا یہ دورہ نہ صرف امریکہ اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو مضبوط بنانے کا موقع ہے، بلکہ خطے میں امریکی اثر و رسوخ کو بھی بڑھانے کا ایک اہم قدم ہے۔