تجارتی جنگ کے دوران چینی صدر شی جن پنگ متبادل تجارتی راہیں اور عالمی حمایت حاصل کرنے میں سرگرم۔

امریکہ اور چین کے درمیان جاری تجارتی جنگ نے عالمی سطح پر معاشی بے چینی پیدا کر دی ہے۔ اس کشیدہ صورتحال میں چینی صدر شی جن پنگ کی سفارتی اور معاشی سرگرمیاں نمایاں طور پر بڑھ گئی ہیں۔ ان کے حالیہ دنوں میں ہونے والے عالمی دورے اور بین الاقوامی ملاقاتیں اس بات کی علامت ہیں کہ چین نئی تجارتی راہوں کی تلاش میں سنجیدہ ہے اور ساتھ ہی امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جارحانہ تجارتی پالیسیوں کے خلاف عالمی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
چین اس وقت اپنی معاشی حکمت عملی کو نئی جہتوں میں ڈھال رہا ہے تاکہ امریکی منڈی پر انحصار کم کیا جا سکے۔ صدر شی جن پنگ نہ صرف ایشیا بلکہ یورپ، افریقہ اور مشرقِ وسطیٰ میں بھی مختلف ممالک سے معاشی تعاون کو فروغ دینے کے لیے متحرک ہو چکے ہیں۔ ان کے حالیہ دوروں میں اقتصادی معاہدے، سرمایہ کاری کے منصوبے اور تجارتی روابط کو ترجیح دی گئی ہے، جو چین کی بدلتی ہوئی حکمت عملی کا واضح اظہار ہے۔
امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی مصنوعات پر بھاری ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد چین نے بھی جوابی اقدامات کیے، جس سے دونوں ممالک کے درمیان معاشی تناؤ میں مزید اضافہ ہوا۔ اس تجارتی جنگ نے نہ صرف ان دونوں ممالک کی معیشتوں پر اثر ڈالا بلکہ عالمی سطح پر بھی مالیاتی منڈیوں میں عدم استحکام پیدا کیا۔ اس صورتحال میں چین نے یہ حکمت عملی اپنائی کہ وہ دنیا کے دیگر حصوں میں اپنی موجودگی بڑھائے اور خود کو ایک متبادل معاشی طاقت کے طور پر پیش کرے۔
چینی قیادت اس وقت اپنی خارجہ پالیسی کو سفارتی نرمی اور تجارتی وسعت کے اصولوں پر استوار کر رہی ہے۔ شی جن پنگ نے اپنے حالیہ بیانات میں بارہا اس بات پر زور دیا ہے کہ چین آزاد تجارت، عالمی تعاون اور ترقیاتی شراکت داری پر یقین رکھتا ہے۔ ان کے اقدامات سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ چین کسی ایک ملک پر انحصار نہیں رکھنا چاہتا بلکہ وہ ایک ایسی عالمی معاشی طاقت کے طور پر ابھرنے کی کوشش میں ہے جو کئی سمتوں میں متحرک ہو۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ چین کی یہ متحرک سفارت کاری نہ صرف فوری تجارتی دباؤ سے نکلنے کی کوشش ہے بلکہ ایک طویل مدتی وژن کا حصہ بھی ہے۔ چین اب دنیا کے لیے ایک نئے معاشی راستے کی راہ ہموار کرنا چاہتا ہے، جہاں ترقیاتی شراکت داری، باہمی احترام اور خود مختار فیصلوں کو ترجیح حاصل ہو۔