“جب رزقِ حلال عبادت ہے، تو کرنسی سے اس کی گواہی کیوں مٹائی گئی؟”

پاکستانی کرنسی نوٹوں پر ماضی میں درج ایک معروف جملہ: “حصول رزقِ حلال عین عبادت ہے”، عوام کو اسلامی اقدار کی یاددہانی کروانے کے لیے شامل کیا گیا تھا۔ یہ عبارت پہلی بار جنرل ضیاء الحق کے دور میں نوٹوں پر چھپی، جب ریاستی سطح پر “اسلامائزیشن” کی پالیسی نافذ کی جا رہی تھی۔ اس کا مقصد معیشت اور روزمرہ لین دین میں اسلامی اصولوں کی اہمیت کو اجاگر کرنا تھا۔

تاہم، وقت کے ساتھ مختلف حکومتوں اور اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی پالیسیوں میں تبدیلی آئی۔ جدید نوٹوں کے ڈیزائن میں اس جملے کو شامل نہیں کیا گیا، جس کی کچھ ممکنہ وجوہات درج ذیل ہو سکتی ہیں:

ڈیزائن کی سادگی اور بین الاقوامی معیار:
جدید کرنسی نوٹوں کا ڈیزائن زیادہ جامع، سیکیورٹی فیچرز سے بھرپور اور بین الاقوامی معیار کے مطابق بنایا جا رہا ہے۔ اس میں اکثر غیر ضروری متن کم کر دیا جاتا ہے تاکہ نوٹ کی readability اور aesthetic بہتر ہو۔

ریاست کا مذہبی غیرجانبداری کی طرف رجحان:
کچھ حلقوں کے مطابق ریاست کا یہ اقدام مذہبی غیرجانبداری کی طرف ایک علامتی قدم ہو سکتا ہے، تاکہ کرنسی کو ایک سیکولر، معاشی آلہ سمجھا جائے، نہ کہ مذہبی بیان کا ذریعہ۔

قانونی یا ادارہ جاتی فیصلہ:
اسٹیٹ بینک نے اگرچہ اس پر کوئی واضح پبلک بیان نہیں دیا، مگر ممکن ہے کہ یہ تبدیلی ایک داخلی پالیسی یا قانونی رائے کی بنیاد پر کی گئی ہو، جس میں کہا گیا ہو کہ کرنسی نوٹ پر مذہبی جملے درج کرنا مناسب نہیں۔

سیاست سے فاصلہ:
چونکہ یہ عبارت ایک مخصوص دور اور پالیسی کا حصہ تھی، بعد کی حکومتوں نے ممکنہ طور پر اس سے فاصلہ اختیار کیا تاکہ ریاستی پالیسی کو غیرجانبدار رکھا جا سکے۔

اگرچہ اس جملے کا ہٹایا جانا ایک علامتی عمل ہے، لیکن اس سے لوگوں کے دلوں میں رزقِ حلال کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ اصل مقصد اس تعلیم کو صرف نوٹ پر نہیں، بلکہ معاشرے میں کردار، عمل اور نظام میں نافذ کرنا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں