بھارت میں تعلیمی بحران — کئی ریاستوں میں اسکول بند، مودی حکومت پر سخت تنقید.

مودی حکومت پر ایک بار پھر “تعلیم دشمنی” کا الزام لگنے لگا ہے، کیونکہ بھارت کی متعدد ریاستوں میں اچانک سکول بند کرنے کا اعلان کیا گیا ہے۔ اس فیصلے سے طلبہ، والدین، اور تعلیمی حلقوں میں شدید اضطراب اور غصہ پایا جا رہا ہے، جبکہ حزبِ اختلاف اسے “دانستہ تعلیمی بحران” قرار دے رہی ہے۔
📍 کہاں کہاں اسکول بند ہوئے؟
اترپردیش، مدھیہ پردیش، راجستھان، اور مہاراشٹرا میں جزوی یا مکمل طور پر سرکاری و نجی اسکول بند کر دیے گئے۔
کئی علاقوں میں بندش کی وجہ موسمی شدت بتائی گئی، لیکن متعدد مقامات پر عملہ کی کمی، مالی بحران، اور پالیسی ناکامی جیسے مسائل بھی سامنے آئے۔
❗ اصل وجوہات کیا ہیں؟
تعلیمی بجٹ میں کٹوتی:
مودی حکومت کی جانب سے وفاقی تعلیمی بجٹ میں کمی کے باعث کئی ریاستیں فنڈز کی قلت کا شکار ہیں۔
اساتذہ کی بھرتی پر پابندیاں:
نئے اساتذہ کی تقرری پر روک اور پرانے ملازمین کی ریٹائرمنٹ سے اسکولوں میں عملہ کی شدید کمی ہو گئی ہے۔
ڈیجیٹل تعلیم پر حد سے زیادہ انحصار:
دیہی علاقوں میں آن لائن تعلیم کی سہولت نہ ہونے کے باوجود، حکومت کی ترجیحات نے روایتی اسکول سسٹم کو نظر انداز کر دیا ہے۔
🗣 عوامی ردعمل:
والدین کا کہنا ہے:
“ہماری نسل کو تعلیم سے محروم کر کے انہیں مزدوری کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔”
طلبہ تنظیموں نے احتجاج کی کال دی ہے اور “تعلیم سب کے لیے” کا نعرہ بلند کیا ہے۔
اساتذہ کی یونینز بھی مودی سرکار کی “بے حس پالیسیوں” کے خلاف سراپا احتجاج ہیں۔
🏛 سیاسی محاذ پر کیا ہو رہا ہے؟
حزبِ اختلاف نے مودی حکومت کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا:
“جو حکومت ایک بچے کو اسکول نہیں دے سکتی، وہ ترقی کا دعویٰ کیسے کر سکتی ہے؟”
راہول گاندھی نے ٹویٹ کیا:
“تعلیم دشمنی بی جے پی کی پرانی روایت ہے، لیکن ہم ہر بچے کو تعلیم دلوا کر رہیں گے۔”
📉 ممکنہ نتائج:
شرح تعلیم میں کمی
نوجوانوں میں بیروزگاری اور ناخواندگی کا بڑھتا ہوا رجحان
سماجی ناہمواری میں اضافہ، خاص طور پر دیہی اور کمزور طبقات میں
مودی سرکار کی پالیسیوں نے ایک بار پھر بھارت کے تعلیم یافتہ مستقبل پر سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔
جب تک اسکولوں کی بندش کا یہ سلسلہ بند نہیں ہوتا، بھارت کا دعویٰ “وشو گرو” (دنیا کا رہنما) بننے کا صرف ایک سیاسی نعرہ ہی رہ جائے گا۔