ایرانی جوہری پروگرام پر کاری ضرب یا محض پروپیگنڈا؟ — سی آئی اے سربراہ کا مبہم بیان کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔

امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سربراہ جان ریٹکلف کے حالیہ بیان نے مشرقِ وسطیٰ میں نئی سفارتی و عسکری ہلچل پیدا کر دی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ “اہم ایرانی جوہری تنصیبات کو شدید نقصان پہنچا ہے اور ان کی دوبارہ تعمیر میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔” تاہم قابلِ غور بات یہ ہے کہ انہوں نے کسی مکمل تباہی کا دعویٰ نہیں کیا، جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ بیان زیادہ تر سیاسی دباؤ، نفسیاتی جنگ اور ایران کو عالمی سطح پر کمزور دکھانے کی ایک کوشش ہے۔

حقیقت یا دھمکی؟
سی آئی اے کا یہ بیان ایسے وقت میں آیا ہے جب ایران عالمی طاقتوں کے ساتھ جوہری معاہدے (JCPOA) میں دوبارہ شمولیت کے اشارے دے رہا تھا، اور عالمی برادری میں مذاکرات کی فضا قائم ہونے لگی تھی۔ ایسے میں “شدید نقصان” کا دعویٰ کرنا بظاہر ایران پر سفارتی دباؤ بڑھانے اور اس کے جوہری پروگرام کی رفتار کو نفسیاتی طور پر متاثر کرنے کی حکمت عملی ہو سکتی ہے۔

ٹیکنیکل زاویہ
جوہری تنصیبات کی ساخت اور سکیورٹی بہت پیچیدہ ہوتی ہے۔ ان تنصیبات کو مکمل تباہ کرنا نہ صرف عسکری طور پر دشوار ہے بلکہ اس کے شدید ماحولیاتی اور سیاسی اثرات بھی ہو سکتے ہیں۔ اگر واقعی “شدید نقصان” ہوا ہوتا، تو اس کے سیٹلائٹ شواہد یا ایران کی جانب سے سخت ردعمل سامنے آ چکا ہوتا — جیسا کہ نطنز سائٹ پر سابقہ حملوں کے بعد ہوا تھا۔

ایرانی ردعمل اور عالمی موقف
ایران نے عمومی طور پر ایسے بیانات کو سیاسی پراپیگنڈا قرار دیتے ہوئے واضح کیا ہے کہ اس کا جوہری پروگرام پرامن مقاصد کے لیے ہے، اور اگر اس پر حملہ ہوا تو وہ جوابی کارروائی کا مکمل حق رکھتا ہے۔ چین، روس اور کچھ یورپی ممالک پہلے ہی امریکہ کی ایسی جارحانہ پالیسیوں کو غیر مستحکم کن قرار دے چکے ہیں۔

ریٹکلف کا مبہم بیان ایک منظم حکمت عملی کا حصہ لگتا ہے جس کا مقصد ایران کو عالمی سطح پر تنہا کرنا اور اسے داخلی دباؤ میں لانا ہے۔ مکمل تباہی کا دعویٰ نہ کرنے سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہ جزوی معلومات کے ذریعے ایک تاثر قائم کرنے کی کوشش ہے — حقیقت شاید اس سے کہیں مختلف ہو۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں