ٹرمپ اگر ایک دن میں ہزار بار پاکستان کی تعریف کرے تب بھی قرآن کی آیت ذہن میں رکھیں۔

قرآن کریم کی سورہ البقرہ کی آیت 120 ایک دائمی اصول اور سیاسی و تہذیبی حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے: “یہود و نصاریٰ تم سے ہرگز راضی نہ ہوں گے جب تک تم ان کے دین کی پیروی نہ کرو۔” اس آیت کا اطلاق صرف مذہبی اختلاف تک محدود نہیں بلکہ یہ عالمی طاقتوں کی سیاسی پالیسیوں اور تہذیبی منصوبوں کو بھی بے نقاب کرتی ہے۔ جب بھی کوئی مغربی لیڈر — جیسے ڈونلڈ ٹرمپ — پاکستان یا مسلمانوں کی تعریف کرتا ہے، تو ہمیں جذباتی خوش فہمی میں مبتلا ہونے کے بجائے، قرآن کی اس ہدایت کو ذہن میں رکھنا چاہیے۔

امریکہ یا مغرب کی تعریف ہمیشہ مشروط ہوتی ہے، یا کسی وقتی سیاسی ضرورت، مفاد یا دباؤ کے تحت دی جاتی ہے۔ کل تک جس پاکستان پر دہشتگردی کے الزامات لگا کر پابندیاں لگائی جا رہی تھیں، آج اگر اس کی تعریف ہو رہی ہے تو سوال یہ نہیں کہ “تعریف کیوں ہوئی؟” بلکہ یہ ہونا چاہیے کہ “کیا قیمت ادا کر کے یہ تعریف حاصل کی گئی؟”

تاریخ گواہ ہے کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے مسلم دنیا کو بارہا اعتماد دیا، دوستی کا وعدہ کیا، لیکن آخرکار انہی ممالک کو سیاسی عدم استحکام، معاشی بحران، یا براہ راست جنگ کا نشانہ بنایا۔ عراق کے ساتھ بھی ایسا ہوا، افغانستان، لیبیا، شام اور اب ایران کے ساتھ بھی یہی کھیل کھیلا جا رہا ہے۔

یہود و نصاریٰ کا مطلب صرف یہ نہیں کہ ہر عیسائی یا یہودی فرد دشمن ہے — بلکہ یہاں اشارہ اُن اجتماعی سیاسی، تہذیبی اور عسکری طاقتوں کی طرف ہے جو مسلم اقوام کی خودمختاری، عقیدے اور تمدن کو چیلنج کرتی ہیں۔ یہی وہ پسِ منظر ہے جس میں ہمیں مغرب کی جانب سے کی جانے والی کسی بھی بات، پالیسی یا تعریف کو سمجھنا چاہیے۔

اگر مسلمان اقوام، خصوصاً قیادتیں، مغرب کی وقتی خوشنودی کو اپنی پالیسی کی بنیاد بنائیں گی، تو انجام صرف وقتی تعلقات اور دائمی انحصاری ہوگا۔ ہمیں قرآن کی اس ہدایت کو محض دینی درس گاہوں تک محدود رکھنے کے بجائے، اپنی خارجہ پالیسی، میڈیا بیانیے اور تعلیمی نظام میں شامل کرنا ہوگا — تاکہ ہماری نسلیں دشمن کی تعریف کے فریب میں نہ آئیں، بلکہ اس کے عزائم کو بھی سمجھیں۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں