“وہ کرِیسٹ بھی ٹوٹ گیا ہے جو امن کے لیے بنایا تھا۔”

جریمی بووؤن کے بقول، 7 اکتوبر 2023 کو حماس کے حملوں کے ردِ عمل میں اسرائیل نے امریکی اسلحے اور مالی معاونت کے سہارے جنگ کا آغاز کیا، اور مغربی ممالک نے ابتدائی طور پر اسے اس حق میں گہری اخلاقی حمایت دی کیونکہ ہلاکتوں اور یرغمالیوں کے مناظرے نے عالمی برادری کو جھنجھوڑ دیا تھا
تاہم، اب یہی اتحادی ممالک—برطانیہ، فرانس اور کینیڈا—اسرائیل کے جنگی آپریشن کی شدید مذمت کر رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ “نیا حملہ بڑھا چڑھا کر غیر متناسب ہے”؛ ان کے بیانات میں یہ واضح ہے کہ اسرائیل کا قضیہ اب ان کے ہاں قابلِ برداشت نہیں رہا
بووؤن نشاندہی کرتے ہیں کہ اس مدت میں جب غزہ میں شہری ہلاکتیں، انسانی المیہ اور امداد کی بندش نے شدت اختیار کی، تو عالمی حمایت کا حساب کتاب بدل گیا۔ اب یہ ممالک مراعات سے آگے بڑھ کر “اگر اسرائیل نے جنگ بندی نہ کی اور امداد کی راہیں نہ کھولیں تو مزید ٹھوس اقدامات کیے جائیں گے” کی دھمکی دے رہے ہیں جن میں معاشی پابندیاں یا فلسطین کی ریاستی شناخت تسلیم کرنا شامل ہو سکتا ہے
یہ صورتِ حال اس بات کی دلیل ہے کہ عسکری قوت اور ابتدائی خیر سگالی طویل نہیں چل سکتی؛ جب جنگ انسانی جانوں پر بھاری پڑتی ہے، تو حتیٰ کہ پرانے دوست بھی اپنے ضمیر اور خارجہ پالیسی کے تقاضوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔