“پانی کی بوند بوند قیمت ہے — وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت اہم اجلاس نے ملک کے پانی کے مستقبل کا نقشہ کھینچ دیا۔”

**وزیراعظم کی زیرِ صدارت اجلاس: پانی کے ذخائر اور قومی بحران کا حل**
پاکستان ایک ایسے سنگین مسئلے کا سامنا کر رہا ہے جس کی سنگینی ابھی عوام تک پوری طرح منتقل نہیں ہوئی: پانی کے ذخائر کی کمی اور آئندہ کے لیے پانی کدریائے چناب میں پانی کی شدید کمی، دو روز میں 91,600 کیوسک کم ہو گیا پانی!ی شدید قلت۔ اس پسِ منظر میں وزیراعظم **شہباز شریف** نے اپنے دفترِ صدارت میں ایک **اہم اور حساس اجلاس** بلایا جس میں مختلف وفاقی اور صوبائی شراکت داروں کے ساتھ پانی کے ذخائر، گھٹتے جھیلوں، دریاوں کے بہاؤ اور زرعی علاقوں میں آبپاشی کے مسائل پر تفصیلی تبادلۂ خیال کیا گیا۔
#### ۱. اجلاس کا پسِ منظر اور ایجنڈا
* **پانی کا بحران**: عالمی بینک اور دیگر بین الاقوامی اداروں کی رپورٹس کے مطابق پاکستان اس وقت دنیا کے ان ممالک میں شامل ہے جہاں 2025 تک پانی کی شدید قلت جائز توقع ہے۔ زراعت پر منحصر معیشت میں پانی کی فرد فی سالانہ دستیابی تیزی سے کم ہو رہی ہے۔
* **ذخائر میں کمی**: Tarbela اور Mangla جیسے بڑے ڈیمز میں پانی کی سطح مسلسل گر رہی ہے، جس کے نتیجے میں بجلی کے پیداواری پلانٹس پر بھی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
* **گلیشئر پگھلاؤ اور تغیراتی اثرات**: ہمالیہ اور ہوائی خطوں کے گلیشئیروں کا پگھلاؤ موسمیاتی تبدیلی کے باعث تیز ہوا ہے، جس سے قریبی ندی ندیاں فوراً بڑھ جاتی ہیں اور پھر خشک سالی کے باعث گھٹ بھی جاتی ہیں۔
اجلاس میں زیرِ بحث کلیدی نکات یہ تھے:
1. **موجودہ ذخائر کا جائزہ اور ڈیٹا**: نیشنل واٹر اتھارٹی، پاکستان میٹریل ایکسپلوریٹری ڈیپارٹمنٹ اور واٹر ریسورسز منسٹری نے مل کر پاکستان کے تمام بڑے چھوٹے ڈیمز، ٹیوب ویلوں کی تعداد، زیرِ زمین پانی کی سطح اور آبی ذخائر کی حالت کا تازہ ترین ڈیٹا پیش کیا۔
2. **زرعی شعبے میں آبپاشی کا نظام**: زراعت میں واٹر مینجمنٹ کے ناقص نظام کے باعث پانی کا ضیاع بڑھ رہا ہے۔ ولایت نکوٹہ پلانٹس اور آبپاشی کے ندی نہروں کی سینچائی سے پتہ چلتا ہے کہ تقریباً 30–40٪ پانی سڑکوں اور نالوں میں ضائع ہو جاتا ہے۔
3. **شهری پانی کی فراہمی**: کراچی، لاہور اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں پانی کے ٹینکر بحران نے عوام کو پریشان کر رکھا ہے۔ لیڈنگ ورکرز اور واٹر بورڈز نے بتایا کہ انفراسٹرکچر کے پرانے پن کی وجہ سے لیکیج 40٪ سے کہیں زیادہ ہے۔
4. **پانی کی بچت اور شعور اجاگر کرنا**: عوامی آگاہی اور تعلیم کا فقدان بھی ایک بڑا مسئلہ ہے؛ گھروں، اسکولوں، دفاتر اور صنعتوں میں پانی کے ضیاع کو روکنے کے لیے پروگرام نہیں چلائے گئے۔
—
### 🗣️ **اجلاس میں شرکاء اور ان کے خیالات**
* **وفاقی وزیر پانی و بجلی** نے کہا کہ حکومتی توجہ کا مرکز **واٹر کنزرویشن پالیسی** بنانا ہونا چاہیے۔ انہوں نے زور دیا کہ ایک قومی واٹر کمیشن قائم کیا جائے جو صوبوں اور وفاق کے بیچ رابطے کو باقاعدہ رکھے۔
* **صوبائی وزرائے پانی** نے متعلقہ علاقوں میں **کانٹوں کی جھیلوں اور پشتوں** کو بڑھانے اور چھوٹے ڈیمز کی مرمت کا مطالبہ کیا۔ پنجاب نے مزید آبپاشی کے جدید طریقے جیسے **ڈریپ ایریگیشن** کو فروغ دینے کی پیشکش کی۔ سندھ نے دریائے سندھ کے پانی پر **لگاتار پانی کے حقوق** کا ایشو اٹھایا۔
* **وزیر موسمیاتی تبدیلی** نے گلیشئر پگھلاؤ کے نتائج اور سمندری پانی کے رستے شہروں میں خوراکی پانی میں نمکینی (Salinity) کے اضافے کو اجاگر کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ملک کو **کلائمٹ ایکشن پلان** پر تیزی سے عمل کرنا ہوگا تاکہ آئندہ دہائی میں پانی کے بحران سے نمٹا جا سکے۔
* **ماہرین معاشیات** نے موجودہ پانی کے بحران کے معاشی اثرات بیان کیے: رواں سال دھان کی کاشت متاثر ہونے سے GDP میں کمی اور خوراک کی قیمتوں میں 20–25٪ اضافہ ہو سکتا ہے۔
—
### 💧 **اجلاس میں طے ہونے والی اہم سفارشات اور اقدامات**
1. **نیشنل واٹر پالیسی کی منظوری:**
وزیراعظم نے ہدایت دی کہ **نیشنل واٹر کمیشن** اور **واٹر پالیسی** پر تیزی سے کام مکمل کیا جائے۔ اس پالیسی کے تحت:
* مخیر افراد اور نجی شعبے کو **ریچارج پٹ** (Recharge Pits) کی تعمیر اور زیرِ زمین پانی کو دوبارہ بھرنے کے منصوبوں میں شامل کیا جائے گا۔
* **واٹر یوز فی دم مانیٹرنگ** (Usage per Capita Monitoring) کے لیے ڈیجیٹل میٹرز لگائے جائیں گے تاکہ شہریوں کو پانی کے بلوں میں معقول تبدیلی کا سامنا ہو۔
2. **بڑھے ڈیمز اور چھوٹے ڈیمز کی تعمیر و بحالی:**
* **Diamer-Bhasha ڈیم** اور **Munda ڈیم** کی تکمیل کو تیزی سے آگے بڑھانے کے لیے **نجی سرمایہ کاری** یا اسپانسرشپ ماڈل متعارف کرایا جائے گا۔
* سندھ اور بلوچستان میں موجود **چیک ڈیمز** کو فوری طور پر مرمت کر کے نئے چھوٹے تحفظاتی ڈیمز بنانے کا منصوبہ شروع کیا جائے گا۔
3. **زرعی شعبے میں جدید آبپاشی:**
* **ڈریپ اور سپرنکلر سسٹمز** کی تنصیب کے لیے کسانوں کو سبسڈی دی جائے گی تاکہ کم پانی میں زیادہ پیداوار ممکن ہو سکے۔
* چھوٹے اور درمیانے درجے کے کسانوں کے لیے **آبپاشی کوآپریٹیو سوسائٹیز** قائم کی جائیں گی تاکہ پانی کے ضیاع کو مشترکہ نظم و نسق کے تحت روکا جائے۔
4. **شہری انفراسٹرکچر اپگریڈیشن:**
* صوبائی حکومتیں **پانی کی لیکیج** کو صفر کے قریب لانے کے لیے فوراً ایکشن پلان بنائیں۔
* **واٹر بوتلنکنگ پلانٹس** اور **واٹر ٹریٹمنٹ پلانٹس** کو جدید خطوط پر استوار کیا جائے گا تاکہ شہر بھر میں **پینے کے صاف پانی** کی دستیابی یقینی ہو۔
5. **عوامی آگاہی مہم اور تعلیمی اداروں کا کردار:**
* حکومت نے **پانی بچت مہم** کے تحت ٹی وی، ریڈیو اور سوشل میڈیا پر **ڈیجیٹل کمپین** شروع کرنے کی ہدایت دی ہے۔
* اسکولوں میں **پانی کے سبق** کو لازمی مضمون بنایا جائے گا اور طلبہ کو سکول لیول پراجیکٹس کے ذریعے پانی سے متعلق شعور دیا جائے گا۔
6. **موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے دیگر اقدامات:**
* **ریگستانی علاقے** اور بلوچستان کے خشک حصوں میں **واٹر ہارویسٹنگ** (Water Harvesting) کے کامیاب منصوبوں کو بڑھاوا دیا جائے گا۔
* **گلیشئر ریسرچ انسٹی ٹیوٹ** کا قیام عمل میں لایا جائے گا تاکہ گلیشئیرز کے پگھلاؤ کا باقاعدہ جائزہ لیا جا سکے اور اس کے مطابق پلان بنائے جائیں۔
—
### 🔍 **ممکنہ چیلنجز اور مستقبل کے اقدام**
* **پانی کا بین الصوبائی تنازع:**
پانی کے تنازعات ہمیشہ سے صوبوں کے درمیان کشیدگی کا سبب رہے ہیں۔ وفاقی حکومت نے مذاکراتی میز پر سب کو بٹھانے اور **پانی کی تقسیم کا نیا فارمولا** پیش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس میں **آبادی، زرعی پیداوار اور موسمیاتی حالات** کو مدنظر رکھتے ہوئے نیا الگوردم وضع کیا جائے گا۔
* **مالی وسائل کا حصول:**
ایسے بڑے منصوبوں کے لیے وسیع پیمانے پر سرمایہ کاری درکار ہوگی۔ حکومت نے **ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک** اور **اسلامی ترقیاتی بینک** سے فنڈنگ کے امکانات تلاش کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
* **کلائمٹ ریزیلینس:**
آئندہ برسوں میں پانی کے بحران کا مقابلہ کرنے کے لیے **کلائمٹ ریزیلینٹ انفراسٹرکچر** کی تعمیر ضروری ہے۔ اس میں **مٹی تحفظ، جنگلات کی بحالی** اور **سمندر کنارے پانی کے ذخائر** جیسے منصوبے شامل ہوں گے۔
پانی کی قلت صرف ایک معاشی مسئلہ نہیں، بلکہ یہ **سماجی، ماحولیاتی اور انسانی صحت** کے لیے بھی خطرہ بن سکتی ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف کے زیرِ صدارت یہ اجلاس امید کی کرن ہے کہ اپنی فیصلوں کو عملی جامہ پہنایا جائے گا۔ اگرچہ راستہ آسان نہیں، مگر **قومی یکجہتی، شفافیت اور مضبوط حکمتِ عملی** کے ذریعے پاکستان پانی کے بحران سے نمٹنے کا عزم رکھتا ہے۔
دنیا کے بدستور بدلتے موسمی پیرائے کے پیشِ نظر، یہ اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ پاکستان کے عوام کو امید ہے کہ **موجودہ حکومت** پانی کے معاملے کو سنجیدگی سے لے کر آئندہ نسلوں کے لیے ایک **پائیدار اور محفوظ مستقبل** کی بنیاد رکھے گی۔