غزہ میں قحط، بمباری اور بے بسی، ڈھائی ماہ بعد محدود امداد بحال

غزہ ایک بار پھر انسانی المیے کا شکار۔ اسرائیلی بمباری، محاصرے اور زمینی کارروائیوں نے غزہ کو ایک کھلی جیل میں بدل دیا ہے، جہاں:

* **خوراک ختم**
* **ادویات ناپید**
* **پینے کا صاف پانی دستیاب نہیں**
* **بجلی اور ایندھن کا بحران جاری**

ڈھائی ماہ کی مکمل ناکہ بندی کے بعد اب **محدود امداد کا دوبارہ آغاز** ہوا ہے، جو متاثرہ لاکھوں فلسطینیوں کے لیے کسی سانس جیسی حیثیت رکھتا ہے۔
بحران کی شدت:

* **اقوام متحدہ** کے مطابق غزہ میں **5 لاکھ سے زائد افراد قحط کے دہانے پر** ہیں۔
* اسپتالوں میں **ایندھن کی کمی** کے باعث وینٹی لیٹرز بند پڑے ہیں، معصوم بچوں کی جان خطرے میں ہے۔
* **خوراک، پانی اور رہائش** کی کمی نے مہاجر کیمپوں کو زندہ قبریں بنا دیا ہے۔

### 🚚 امداد کی بحالی:

ڈھائی ماہ کے تعطل کے بعد **رفح کراسنگ** سے کچھ امدادی ٹرک غزہ میں داخل ہوئے ہیں، جن میں:

* خشک راشن
* پانی کی بوتلیں
* ابتدائی طبی امداد
* چند ادویات اور طبی آلات شامل ہیں

لیکن یہ امداد ضروریات کے سامنے **نقطہ برابر بھی نہیں**۔ فی الحال روزانہ صرف چند ٹرک ہی داخل ہو رہے ہیں۔
عالمی ردعمل:

* **اقوام متحدہ**، **ریڈ کراس** اور دیگر تنظیموں نے **مزید راستے کھولنے** اور **مسلسل امداد فراہم کرنے** کا مطالبہ کیا ہے۔
* انسانی حقوق کی تنظیمیں غزہ میں جاری صورت حال کو **”نسل کشی کے مترادف”** قرار دے رہی ہیں۔
* کئی عالمی رہنماؤں نے **جنگ بندی** اور **فوری امداد** کے مطالبے کیے ہیں، مگر عملی اقدام اب بھی ناکافی ہے۔
انسانی المیہ:

ایک ماں اپنے بچے کو آٹے کی خالی بوری میں لپیٹ کر دفن کرتی ہے…
ایک باپ اپنے زخمی بچے کو اسپتال تک پہنچانے کے لیے میلوں پیدل چلتا ہے، مگر راستے میں ہی سانسیں تھم جاتی ہیں…

یہ **غزہ کی روزمرہ کی کہانی** ہے۔
نتیجہ:

جب تک **مستقل جنگ بندی**، **باقاعدہ امداد کی بحالی** اور **سیاسی حل** پر عمل نہیں ہوتا، غزہ ایک انسانی قبرستان میں بدلتا جائے گا۔
دنیا کو محض بیانات نہیں، بلکہ **فیصلہ کن اقدامات** کی ضرورت ہے — *کیونکہ ہر لمحہ قیمتی جانیں نگل رہا ہے۔*

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں