پہلے دھمکی، پھر وضاحت — اسرائیل کا بیانیہ متزلزل کیوں ہو رہا ہے؟”

اسرائیلی وزیرِ دفاع کے بیانات میں تضاد، اور اس کے ممکنہ اثرات
اسرائیل کے وزیرِ دفاع یوآف گالانٹ اور پھر اسرائیل کاٹز کے بیانات مشرق وسطیٰ میں جاری تناؤ میں ایک نیا تضاد سامنے لاتے ہیں۔ ان کے حالیہ ریمارکس اور وضاحتیں نہ صرف پالیسی کی غیر یقینی کیفیت کو ظاہر کرتی ہیں بلکہ عالمی رائے عامہ کو بھی کنفیوژ کر رہی ہیں۔
🗣️ پہلا بیان: کھلی دھمکی
“تہران کے رہائشیوں کو ایران کے اسرائیل پر حملے کی قیمت ادا کرنی پڑے گی۔”
یہ بیان:
بین الاقوامی قانون کے تحت سویلین آبادی کو نشانہ بنانے کی دھمکی کے مترادف ہے
جنگی اخلاقیات اور جنیوا کنونشنز کے اصولوں کی کھلی خلاف ورزی محسوس ہوتی ہے
ایران کے عوام میں شدید غم و غصے کو جنم دینے والا پیغام ہے
🔄 دوسرا بیان: سیاسی صفائی
“ہمارا تہران کے رہائشیوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی ارادہ نہیں۔”
اسرائیل نے دباؤ میں آ کر پوزیشن نرم کی، کیونکہ:
اقوام متحدہ، عالمی میڈیا، اور یورپی پارٹنرز اس بیان پر سخت ردعمل دے سکتے تھے
عوامی مقامات یا رہائشی علاقوں پر حملہ اسرائیل کی سفارتی ساکھ کو تباہ کر سکتا ہے
🏚️ نیا مؤقف: علاقہ خالی کرواؤ، مگر نشانہ بہرحال تہران
وزیر دفاع کا کہنا ہے:
“رہائشیوں کو ان علاقوں سے ہٹنا ہوگا جہاں اسرائیل کو حکومتی اہداف نشانہ بنانا ضروری ہوگا۔”
اسرائیل اب بھی تہران کے اندر کارروائی کی تیاری کر رہا ہے
مگر سویلین کو پیشگی خبردار کر کے اپنی پوزیشن کو قانونی یا اخلاقی تحفظ دینے کی کوشش کر رہا ہے