سیلاب زدگان کے لیے وقتی امداد نہیں، مستقل بحالی کی ضرورت ہے!

ضلع بونیر سمیت خیبر پختونخوا کے دیگر سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں صورتحال انتہائی تشویشناک ہے۔ وقتی ریلیف، فوٹو سیشنز، اور بیان بازیوں سے ہٹ کر اب اصل کام “بحالی اور آبادکاری” کا ہے۔
✅ اصل ترجیحات کیا ہونی چاہییں؟
متاثرہ خاندانوں کو مستقل رہائش کی فراہمی
خیمے اور عارضی شیلٹرز وقتی سہارا ہیں، اصل ضرورت پائیدار گھروں کی ہے۔
متاثرہ انفراسٹرکچر کی فوری بحالی
ٹوٹی سڑکیں، تباہ شدہ اسکول، بند ہسپتال — ان کی فوری مرمت ناگزیر ہے۔
زرعی زمینوں اور کھیتی باڑی کی بحالی
کسانوں کی زمینیں پانی میں بہہ گئیں، بیج اور کھاد فراہم کیے بغیر دیہی معیشت بحال نہیں ہو سکتی۔
روزگار کی فراہمی اور مقامی معیشت کی بحالی
جن کا روزگار متاثر ہوا ہے، ان کے لیے حکومتی سبسڈی، بلاسود قرضے، اور روزگار کے مواقع پیدا کیے جائیں۔
دماغی صحت اور سماجی سپورٹ
قدرتی آفات کے بعد لوگ صرف جسمانی نہیں، ذہنی و نفسیاتی طور پر بھی متاثر ہوتے ہیں۔ کمیونٹی سپورٹ سسٹمز کی ضرورت ہے۔
⚠️ صرف امداد نہیں، احتساب بھی!
یہ بھی دیکھا جانا چاہیے کہ:
فنڈز کہاں خرچ ہو رہے ہیں؟
کس کو ٹھیکے دیے جا رہے ہیں؟
کیا مقامی لوگوں کو منصوبہ بندی میں شامل کیا جا رہا ہے یا نہیں؟
🔁 مستقل حل کے بغیر ہر سال تباہی:
اگر ہر سال سیلاب آتا ہے اور ہم صرف ریلیف کیمپ لگا کر فارغ ہو جاتے ہیں تو یہ انسانی المیہ کا تسلسل ہے، نہ کہ حکومتی کارکردگی۔
📣 اپیل:
حکومت، این جی اوز، میڈیا، اور سول سوسائٹی کو چاہیے کہ:
فوکس ریلیف سے ہٹ کر ریکوری اور ری کنسٹرکشن پر رکھیں۔
شفافیت، ترجیحات، اور متاثرہ افراد کی شمولیت کو یقینی بنائیں۔