“سیلابی ریلہ، بے بس نظام: سوات سانحے پر عوام کا احتجاج”.

سوات کے دل، نشاط چوک میں آج وہ صدا گونجی جو برسوں کی خاموشی کے بعد عوامی بے بسی کی پکار بن گئی۔ سول سوسائٹی اور مقامی شہریوں نے گزشتہ روز کے المناک حادثے کے خلاف سڑکوں پر نکل کر ضلعی انتظامیہ اور حکومت کے خلاف شدید احتجاج کیا۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ اس واقعے کی باقاعدہ ایف آئی آر درج کی جائے اور غفلت کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جائے۔

یہ احتجاج اُس وقت شدت اختیار کر گیا جب جمعے کو سیلابی ریلے نے سیروتفریح کی غرض سے سوات آئے ڈسکہ کے ایک ہی خاندان کے 10 افراد کی جان لے لی۔ 16 افراد پر مشتمل اس گروپ میں سے صرف تین کو بچایا جا سکا، جبکہ دیگر کی لاشیں دریائے سوات سے نکالی گئیں۔

وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے معاون خصوصی برائے ریلیف نیک محمد نے واقعے کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ سوات بائی پاس پر ریسکیو 1122 کا سرچ آپریشن تاحال جاری ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ابتدائی غفلت پر چار افسران کو معطل کر کے سات دن میں رپورٹ دینے والی تحقیقاتی کمیٹی تشکیل دے دی گئی ہے۔

چیف سیکرٹری خیبرپختونخوا شہاب علی شاہ نے متاثرہ علاقوں کا دورہ کیا اور واضح کیا کہ دریاؤں کے کناروں پر قائم تجاوزات کے خلاف بھرپور آپریشن کیا جائے گا۔ ان کے مطابق، تحقیقاتی ٹیم موقع پر پہنچ چکی ہے اور غفلت ثابت ہونے پر سخت کارروائی کی جائے گی۔

دوسری جانب پنجاب حکومت کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے خیبرپختونخوا حکومت کو شدید تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ نہ وہاں سڑکیں بہتر کی گئیں، نہ سیاحتی مقامات پر کوئی ترقیاتی کام ہوا، اور نہ ہی ریسکیو اداروں کو تربیت دی گئی۔ انہوں نے ریسکیو 1122 میں سیاسی بھرتیوں کا الزام بھی عائد کیا۔

مزید برآں، انہوں نے دریائے سوات پر بننے والے ہوٹلوں کو آڑے ہاتھوں لیتے ہوئے کہا کہ ان کے قیام کی اجازت کس نے دی اور کس کی “پرچی” پر یہ ہوٹل آٹھ سال سے غیر قانونی طور پر قائم ہیں؟

یہ واقعہ محض ایک قدرتی سانحہ نہیں، بلکہ یہ ریاستی غفلت، ناقص منصوبہ بندی، اور انتظامی کوتاہیوں کی سنگین نشاندہی کرتا ہے۔
سوات میں سیلابی ریلے سے 10 لاشیں برآمد، تین افراد تاحال لاپتہ، امدادی کارروائیاں جاری۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں