گوری خان کے لگژری ریسٹورینٹ پر جعلی پنیر کھلانے کا الزام—کیا چمکتی دنیا کے پیچھے کچھ سچ چھپا ہے؟

ممبئی کی روشنیوں میں جگمگاتے مہنگے ترین ریسٹورینٹس، جہاں ایک پلیٹ کی قیمت عام شہری کی تنخواہ سے زیادہ ہو، وہاں اگر آپ کو “جعلی پنیر” کھلا دیا جائے تو کیسا لگے گا؟ جی ہاں، یہ سننے میں کسی افواہ یا سازشی کہانی جیسا لگتا ہے، لیکن حالیہ خبروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی اہلیہ اور مشہور ڈیزائنر و بزنس ویمن گوری خان کے لگژری ریسٹورینٹ پر یہی الزام سامنے آیا ہے — کہ وہاں جعلی پنیر پیش کیا جا رہا ہے۔
معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے ریسٹورینٹ میں ملنے والے کھانے کے معیار پر سوال اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہاں جو “پنیر” دیا جا رہا ہے، وہ نہ صرف اصلی پنیر سے مختلف ہے بلکہ ممکنہ طور پر پروسسڈ یا سستا متبادل ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے والے ان تبصروں نے ریسٹورینٹ کی ساکھ کو ایک لمحے میں سوالیہ نشان بنا دیا۔
جب برانڈ صرف خوبصورت فرنیچر، دلکش روشنیوں اور مشہور شخصیات کے نام پر چلیں، تو ان کی کامیابی کا وزن معیار سے زیادہ تاثر پر ہوتا ہے۔ لیکن کھانے جیسی بنیادی چیز میں اگر کمی آ جائے تو پھر یہ سارا تاثر زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔
گوری خان کی ٹیم نے فوری طور پر اس الزام کا نوٹس لیا اور وضاحت جاری کی کہ ان کے ریسٹورینٹ میں استعمال ہونے والا ہر اجزاء “اعلیٰ معیار” کا ہے اور انہوں نے الزامات کو “بے بنیاد” اور “مس گائیڈڈ” قرار دیا۔ ان کے مطابق، یہ سب ایک غلط فہمی پر مبنی ہے، اور ان کا ادارہ ہمیشہ گاہکوں کے اعتماد کو اولین ترجیح دیتا ہے۔
اس سارے معاملے نے ایک بڑے سوال کو جنم دیا ہے: کیا شہرت یافتہ چہروں کے برانڈز واقعی معیار پر اتنے حساس ہوتے ہیں جتنا وہ دعویٰ کرتے ہیں؟ یا یہ سب ایک چمکتی دکان کا دھوکہ ہے جس کے پیچھے اصل کہانی کچھ اور ہی ہوتی ہے؟
سچ یہ ہے کہ صارف اب پہلے جیسا معصوم نہیں رہا۔ سوشل میڈیا اور آن لائن ریویوز نے ہوٹلوں، کیفے اور ریسٹورینٹس کو ایک شفاف شیشے کے گھر میں لا کھڑا کیا ہے، جہاں ذرا سی لغزش ساکھ کو زمین بوس کر سکتی ہے۔
یہ واقعہ صرف ایک پنیر کا نہیں، اعتماد کا ہے — جو اگر ایک بار متزلزل ہو جائے، تو اسے دوبارہ جیتنا بہت مشکل ہو جاتا ہے۔ اور گوری خان جیسے بڑے ناموں کو اس اعتماد کو سنبھالنے کے لیے دو گنا احتیاط کرنا پڑتی ہے۔
تو اگلی بار جب آپ کسی “A-list” ریسٹورینٹ میں جائیں، تو صرف سجاوٹ نہ دیکھیں، ذائقے کو بھی پرکھیں — کیونکہ ہو سکتا ہے، اس خوشبو میں کوئی سچ چھپا بیٹھا ہو۔ممبئی کی روشنیوں میں جگمگاتے مہنگے ترین ریسٹورینٹس، جہاں ایک پلیٹ کی قیمت عام شہری کی تنخواہ سے زیادہ ہو، وہاں اگر آپ کو “جعلی پنیر” کھلا دیا جائے تو کیسا لگے گا؟ جی ہاں، یہ سننے میں کسی افواہ یا سازشی کہانی جیسا لگتا ہے، لیکن حالیہ خبروں کے مطابق، شاہ رخ خان کی اہلیہ اور مشہور ڈیزائنر و بزنس ویمن گوری خان کے لگژری ریسٹورینٹ پر یہی الزام سامنے آیا ہے — کہ وہاں جعلی پنیر پیش کیا جا رہا ہے۔
معاملہ اس وقت سرخیوں میں آیا جب سوشل میڈیا پر کچھ صارفین نے ریسٹورینٹ میں ملنے والے کھانے کے معیار پر سوال اٹھاتے ہوئے دعویٰ کیا کہ وہاں جو “پنیر” دیا جا رہا ہے، وہ نہ صرف اصلی پنیر سے مختلف ہے بلکہ ممکنہ طور پر پروسسڈ یا سستا متبادل ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر تیزی سے وائرل ہونے والے ان تبصروں نے ریسٹورینٹ کی ساکھ کو ایک لمحے میں سوالیہ نشان بنا دیا۔
جب برانڈ صرف خوبصورت فرنیچر، دلکش روشنیوں اور مشہور شخصیات کے نام پر چلیں، تو ان کی کامیابی کا وزن معیار سے زیادہ تاثر پر ہوتا ہے۔ لیکن کھانے جیسی بنیادی چیز میں اگر کمی آ جائے تو پھر یہ سارا تاثر زمین بوس ہونے میں دیر نہیں لگاتا۔
گوری خان کی ٹیم نے فوری طور پر اس الزام کا نوٹس لیا اور وضاحت جاری کی کہ ان کے ریسٹورینٹ میں استعمال ہونے والا ہر اجزاء “اعلیٰ معیار” کا ہے اور انہوں نے الزامات کو “بے بنیاد” اور “مس گائیڈڈ” قرار دیا۔ ان کے مطابق، یہ سب ایک غلط فہمی پر مبنی ہے، اور ان کا ادارہ ہمیشہ گاہکوں کے اعتماد کو اولین ترجیح دیتا ہے۔
اس سارے معاملے نے ایک بڑے سوال کو جنم دیا ہے: کیا شہرت یافتہ چہروں کے برانڈز واقعی معیار پر اتنے حساس ہوتے ہیں جتنا وہ دعویٰ کرتے ہیں؟ یا یہ سب ایک چمکتی دکان کا دھوکہ ہے جس کے پیچھے اصل کہانی کچھ اور ہی ہوتی ہے؟
سچ یہ ہے کہ صارف اب پہلے جیسا معصوم نہیں رہا۔ سوشل میڈیا اور آن لائن ریویوز نے ہوٹلوں، کیفے اور ریسٹورینٹس کو ایک شفاف شیشے کے گھر میں لا کھڑا کیا ہے، جہاں ذرا سی لغزش ساکھ کو زمین بوس کر سکتی ہے۔