“پاکستان اور بھارت کی جنگوں میں عالمی مدد: ماضی کی طرح، کیا اس بار بھی پاکستان کے اتحادی میدان میں آئیں گے؟”

پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کے دوران دونوں ممالک کے مابین جنگوں میں نہ صرف فوجی قوت بلکہ عالمی سطح پر سفارتی اور سیاسی مدد کا بھی کردار رہا ہے۔ ماضی میں پاکستان کو مختلف جنگوں کے دوران دنیا بھر سے مختلف ممالک کی حمایت حاصل رہی ہے، جو نہ صرف اس کی فوجی طاقت بڑھانے کے لیے اہم ثابت ہوئی بلکہ عالمی سطح پر پاکستان کے موقف کو بھی تقویت ملی۔

1965 کی جنگ میں عالمی مدد
پاکستان اور بھارت کے درمیان 1965 میں ہونے والی جنگ میں امریکہ نے پاکستان کو اہم فوجی امداد فراہم کی۔ امریکہ نے پاکستان کو ایف 86 سیبر جیٹ طیارے، پیٹن ٹینک، اور دیگر فوجی ساز و سامان فراہم کیے۔ اس کے علاوہ چین نے پاکستان کو سیاسی اور سفارتی حمایت دی، انڈیا کو سخت وارننگ جاری کی اور سرحد پر اپنے فوجی بھیجنے کی دھمکی دی۔ سعودی عرب نے پاکستان کو مالی امداد فراہم کی اور اس کے موقف کی بین الاقوامی سطح پر حمایت کی۔

1971 کی جنگ میں چین اور امریکہ کی حمایت
1971 کی جنگ میں بھی چین نے پاکستان کو بھرپور سفارتی حمایت فراہم کی۔ اس کے علاوہ ایران، سعودی عرب اور لیبیا نے پاکستان کو فوجی سامان، طیارے اور مالی امداد فراہم کی۔ اس دوران امریکہ نے پاکستان کی سفارتی مدد کی اور بحری بیڑا خلیجِ بنگال بھیجنے کا اعلان کیا، جو پاکستان کی حمایت کے لیے ایک اہم قدم تھا۔

موجودہ تناظر میں عالمی مدد
موجودہ کشیدگی کے پیش نظر، پاکستان کو مختلف ممالک سے مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ اگر جنگ کی صورت حال مزید بگڑتی ہے تو پاکستان کو اس کی فوجی، سیاسی اور اقتصادی مدد کے لیے مختلف ممالک سے تعلقات مضبوط کرنے کی ضرورت ہوگی۔ چین اور سعودی عرب کی جانب سے پاکستان کو دفاعی مدد اور سفارتی حمایت حاصل ہونے کا امکان ہے، جیسا کہ ماضی میں ہوا تھا۔

پاکستان کا موقف اور عالمی برادری کا ردعمل
پاکستان کی موجودہ حکومت کو عالمی سطح پر اپنے موقف کو مضبوط کرنے اور ممکنہ جارحیت کے خلاف سفارتی اقدامات کو بروئے کار لانے کی ضرورت ہوگی۔ عالمی برادری کو اس بات پر زور دینا چاہیے کہ بھارت کی جانب سے کسی بھی قسم کی جارحیت پاکستان کے امن اور خودمختاری کے لیے خطرہ بن سکتی ہے، اور اس پر مناسب ردعمل کا اظہار کیا جانا چاہیے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو اس کے دوست ممالک کی مدد کی ضرورت ہوگی تاکہ وہ بھارت کی جانب سے ممکنہ حملوں کا مقابلہ کر سکے اور اپنے عوام کی حفاظت یقینی بنا سکے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں