“کیا غزہ کے مظلوموں سے اظہارِ یکجہتی بھی جرم بن گیا؟”

اسلام آباد میں جماعت اسلامی کے رہنما **سینیٹر مشتاق احمد خان** کی اہلیہ **حمیرا طیبہ**، بیٹی **مریم صدیقہ**، بیٹے **علی** اور دیگر خواتین کی گرفتاری نے نہ صرف انسانی حقوق بلکہ **آزادی اظہار** اور **فلسطینی عوام سے یکجہتی** کے حوالے سے سنجیدہ سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد کے مطابق، ان کی اہلیہ نے اسلام آباد پریس کلب کے سامنے **فلسطینی شہداء کے لیے ایک تعزیتی کیمپ** لگایا تھا، جس کا مقصد صرف اور صرف **غزہ میں جاری اسرائیلی بربریت کے خلاف پرامن ہمدردی کا اظہار** تھا، نہ کہ کوئی احتجاج یا سیاسی مظاہرہ۔
تاہم پولیس نے انہیں اور ان کے اہلِ خانہ کو گرفتار کر کے **کوہسار تھانے** میں بند کر دیا۔ یہ واقعہ ایک ایسے وقت پر پیش آیا ہے جب دنیا بھر میں **غزہ کے نہتے شہریوں پر جاری مظالم کے خلاف آواز بلند کی جا رہی ہے**، اور پاکستانی عوام بھی مسلسل فلسطینیوں سے یکجہتی کے اظہار میں پیش پیش ہیں۔
سینیٹر مشتاق احمد نے اس کارروائی کو “**بدترین فاشزم**” اور “**اسرائیل نوازی**” قرار دیا اور سوال اٹھایا کہ:
> “کیا اسلام آباد میں مظلوم فلسطینیوں کے لیے تعزیتی کیمپ لگانا جرم ہے؟”
* کیا پرامن تعزیتی سرگرمیاں **پبلک آرڈر ایکٹ یا دفعہ 144** کے زمرے میں آتی ہیں؟
* اگر تعزیتی کیمپ **پرامن اور غیر سیاسی** تھا تو **پولیس کارروائی کی بنیاد کیا تھی؟**
* کیا یہ گرفتاری **آزادی اظہارِ رائے کی خلاف ورزی** نہیں؟
* حکومت کی جانب سے فلسطین کی حمایت کے دعوے کیا **صرف زبانی جمع خرچ** ہیں؟
سوشل میڈیا پر اس واقعے کے بعد شدید ردعمل سامنے آ رہا ہے۔ شہریوں، انسانی حقوق کی تنظیموں، اور سیاسی کارکنان نے اس گرفتاری کو “**انسانی ہمدردی کے جذبے کا گلا گھونٹنے**” کے مترادف قرار دیا ہے۔
فلسطینی عوام کے ساتھ **تعزیت اور ہمدردی کا اظہار جرم** نہیں، بلکہ **انسانی ضمیر کی آواز** ہے۔ اگر ریاست اس آواز کو بھی دبا رہی ہے تو یہ صرف ایک سیاسی مسئلہ نہیں، بلکہ **انسانیت کے ضمیر پر حملہ** ہے۔
اس واقعے نے واضح کر دیا ہے کہ آج ہمیں صرف **غزہ کے نہتے شہریوں** کو نہیں، بلکہ **اظہارِ ہمدردی کے حق** کو بھی بچانے کی ضرورت ہے۔