“کیا فوجی اختیارات کے سہارے انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں فوجی قانون سے بالاتر ہو گئے ہیں؟ سرینگر ایئرپورٹ واقعہ ایک سوالیہ نشان!”

انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں حال ہی میں سرینگر ایئرپورٹ پر ایک سنجیدہ واقعہ پیش آیا جس میں ایک لیفٹنٹ کرنل پر ملازمین سے بدسلوکی اور مارپیٹ کرنے کا الزام ہے۔ اس کے بعد پولیس نے اس کے خلاف مقدمہ درج کر لیا، مگر یہ واقعہ نہ صرف ایک فرد کا معاملہ ہے بلکہ اس سے بڑا سوال اٹھتا ہے کہ آیا کشمیری علاقوں میں فوج کو دیے گئے وسیع اختیارات ان کے رویے اور رویوں پر اثر انداز ہو رہے ہیں؟

فوج کو دیے گئے اختیارات:
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں فوج کو AFSPA (Armed Forces Special Powers Act) کے تحت وسیع اختیارات حاصل ہیں، جس میں انہیں گرفتاری، تلاشی، اور طاقت کے استعمال کے وسیع دائرہ کار دیے گئے ہیں۔ اس قانون کا مقصد مقبوضہ علاقے میں دہشت گردی اور علیحدگی پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کرنا ہے، مگر اس کے ساتھ ہی اکثر شکایات آتی رہتی ہیں کہ اس قانون کا غلط استعمال فوجیوں کی طرف سے ظلم و جبر کی شکل اختیار کر گیا ہے۔

فوجی رویے پر اثر:
ایسے اختیارات فوجیوں میں بے قابو روی پیدا کر سکتے ہیں، جہاں وہ قانون سے بالاتر ہو کر شہریوں کے ساتھ سختی برتتے ہیں۔

کشمیری عوام کی جانب سے اکثر یہ شکایت سامنے آتی ہے کہ فوج کے پاس تشدد، گرفتاری، اور تلاشی کے عمل میں حد سے زیادہ آزادی ہے، جو انسداد دہشت گردی کے نام پر عام شہریوں کو متاثر کرتی ہے۔

سرینگر ایئرپورٹ پر یہ واقعہ بھی اسی تناظر میں دیکھا جا رہا ہے جہاں ایک اعلیٰ عہدے دار کی مبینہ بدسلوکی اس کا مظہر بن سکتی ہے۔

کیا فوجی اختیارات اصلاح کے متقاضی ہیں؟
متعدد انسانی حقوق کی تنظیمیں AFSPA کے ختم یا اس میں اصلاحات کا مطالبہ کر رہی ہیں تاکہ فوجی طاقت کا غلط استعمال روکا جا سکے۔

سرینگر ایئرپورٹ واقعہ جیسے واقعات حکومت اور فوج کے لیے ایک پیغام ہیں کہ قانون کی حکمرانی اور احتساب کو یقینی بنایا جائے۔
انڈیا کے زیرِ انتظام کشمیر میں فوجی اختیارات کی وسعت اور ان کے ممکنہ اثرات ایک پیچیدہ مسئلہ ہیں۔ سرینگر ایئرپورٹ پر ملازمین سے بدسلوکی کا الزام صرف ایک واقعہ نہیں بلکہ ایک بڑے نظامی مسئلے کی عکاسی کرتا ہے جس پر گہرائی سے غور و فکر اور اصلاحات کی ضرورت ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں