پاکستان سولر سسٹم درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک کیسے بنا؟

پاکستان کا دنیا میں سولر سسٹم درآمد کرنے والا سب سے بڑا ملک بن جانا نہ صرف حیران کن ہے بلکہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ملک کی توانائی ضروریات میں کتنی بڑی تبدیلی آ رہی ہے۔ اس تبدیلی کے پیچھے کئی عوامل کارفرما ہیں جو اس مضمون میں تفصیل سے بیان کیے گئے ہیں۔
پاکستان ایک طویل عرصے سے توانائی کے بحران کا شکار رہا ہے۔ لوڈشیڈنگ، بجلی کے نرخوں میں مسلسل اضافہ، اور فرسودہ نظام نے عوام کو مجبور کر دیا کہ وہ متبادل ذرائع کی طرف رخ کریں۔ ایسے حالات میں سولر توانائی ایک بہترین متبادل کے طور پر سامنے آئی۔ جہاں روایتی بجلی مہنگی اور غیر یقینی تھی، وہیں سورج کی روشنی مفت اور ہر جگہ دستیاب ہے۔ یہی وجہ ہے کہ گھروں سے لے کر کاروباری اداروں تک، سب نے سولر سسٹم کو اپنانا شروع کر دیا۔
دوسری طرف حکومت نے بھی پچھلے کچھ سالوں میں سولر پالیسیز پر توجہ دینا شروع کی۔ سولر پینلز پر ڈیوٹی کم کرنا، درآمدات کو سہولت دینا، اور نیٹ میٹرنگ جیسے نظام متعارف کروانا ان فیصلوں میں شامل تھے۔ ان اقدامات نے مارکیٹ میں سولر مصنوعات کی دستیابی بڑھا دی اور قیمتوں کو کم کرنے میں بھی مدد کی۔ جیسے جیسے عوام کا اعتماد اس نظام پر بڑھا، ویسے ویسے درآمدات میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
پاکستان کا موسمی نظام بھی اس تبدیلی کے لیے موزوں ہے۔ یہاں سال کے بیشتر حصے میں سورج چمکتا ہے، جو کہ سولر پینلز کے لیے آئیڈیل ماحول فراہم کرتا ہے۔ خاص طور پر دیہی علاقوں میں جہاں بجلی کی رسائی مشکل ہے، وہاں سولر سسٹمز ایک انقلاب بن کر آئے ہیں۔
ایک اور اہم وجہ ڈالر کی بڑھتی قیمت اور بجلی کے نرخوں میں اضافہ ہے۔ صنعتی شعبے نے اپنی پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے سولر سسٹم کی طرف رخ کیا۔ خاص طور پر ٹیکسٹائل، زراعت اور تعلیم کے شعبوں میں سولر توانائی نے بڑی تبدیلی پیدا کی۔
اس کے علاوہ پاکستان میں نوجوان نسل، سوشل میڈیا، اور یوٹیوب جیسے پلیٹ فارمز نے عوام کو آگاہی دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ مختلف ویڈیوز، ریویوز اور انفلوئنسرز کی معلومات نے عام آدمی کو یہ سمجھنے میں مدد دی کہ سولر سسٹم مہنگا نہیں بلکہ ایک لمبے وقت کا فائدہ مند سرمایہ ہے۔
پاکستان کا دنیا میں سب سے زیادہ سولر سسٹم درآمد کرنے والا ملک بننا اس بات کا اشارہ ہے کہ یہاں کی عوام اب توانائی کے معاملے میں خود مختار ہونے کی طرف بڑھ رہی ہے۔ اگر حکومت پالیسیوں میں مزید استحکام اور سہولت فراہم کرے تو یہ رجحان نہ صرف معیشت کے لیے فائدہ مند ہوگا بلکہ ماحول دوست بھی ثابت ہوگا۔
یہ کامیابی صرف ایک تکنیکی تبدیلی نہیں، بلکہ ایک ذہنیت کی تبدیلی ہے – کہ ہم خود انحصاری کی طرف بڑھ رہے ہیں، اور اپنے وسائل کو بہتر طور پر استعمال کر کے ایک روشن مستقبل کی طرف جا رہے ہیں۔