“اگر امریکہ نے جنگ میں قدم رکھا تو خلیج کا تیل، فوجی اڈے، اور استحکام—سب نشانے پر ہوں گے”

“اگر امریکہ نے جنگ میں قدم رکھا تو خلیج کا تیل، فوجی اڈے، اور استحکام—سب نشانے پر ہوں گے”
ایران اور اسرائیل کے درمیان بڑھتا ہوا تنازع اب صرف دو ریاستوں کی جنگ نہیں رہا، بلکہ مشرقِ وسطیٰ کے توازن کو خطرے میں ڈال چکا ہے۔ اس کشیدگی کے بیچ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ممکنہ اقدامات یا بیانات صورتحال کو اور بھی نازک بنا سکتے ہیں۔
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای کی حالیہ تقریر سے یہ واضح پیغام دیا گیا ہے کہ اگر امریکہ نے اسرائیل کا کھل کر ساتھ دیا یا حملوں میں شمولیت اختیار کی، تو تہران بھرپور جواب دے گا—اور اس بار صرف اسرائیل نہیں بلکہ خلیجی ممالک میں موجود امریکی فوجی اڈے، بحریہ کے اڈے، اور اقتصادی تنصیبات بھی ہدف بنیں گی۔
ایران بظاہر دباؤ کا شکار ضرور ہے، خاص طور پر اس کے خطے میں پھیلے نیٹ ورکس—لبنان کی حزب اللہ، شام میں ملیشیائیں، اور غزہ میں حماس—اسرائیلی حملوں سے کمزور ہو چکے ہیں۔ مگر تہران کے پاس اب بھی وہ اسٹریٹیجک صلاحیت موجود ہے جو خطے کے امن کو تہ و بالا کر سکتی ہے۔
ایرانی قیادت کا بار بار یہ اشارہ کہ “آبنائے ہرمز” بند کی جا سکتی ہے، عالمی معیشت کے لیے ایک خطرناک اشارہ ہے۔ دنیا کے تقریباً 30 فیصد تیل کی رسد اس سمندری راستے سے گزرتی ہے، اور اگر ایران نے واقعی اس راستے کو بند کرنے کی کوشش کی، تو نہ صرف تیل کی قیمتیں آسمان چھوئیں گی بلکہ امریکہ اور اس کے اتحادی بھی ایک پیچیدہ جنگ میں پھنس سکتے ہیں۔
ستمبر 2019 کا وہ حملہ جب سعودی عرب کی آرامکو تنصیبات ایرانی حمایت یافتہ عناصر کے ڈرونز سے نشانہ بنیں، اس بات کی یاددہانی ہے کہ ایران کے پاس روایتی جنگ سے ہٹ کر بھی تباہ کن ذرائع موجود ہیں۔
اس ساری صورتحال میں سوال یہ نہیں کہ ایران کیا کر سکتا ہے—سوال یہ ہے کہ کیا امریکہ اس تنازع میں قدم رکھے گا، اور اگر ہاں، تو دنیا کیا قیمت ادا کرے گی؟
“کوئی نہیں جانتا کہ میں کیا کرنا چاہتا ہوں” — ٹرمپ کی مبہم دھمکی اور ایران سے غیرمشروط سرینڈر کا مطالبہ، کشیدگی میں نئی شدت۔