اگر بھارت نے پاکستان کا پانی بند کر دیا تو…؟ پاکستان ایک زرعی معیشت ہے اور اس کی ریڑھ کی ہڈی دریاؤں کا پانی ہے۔

پاکستان کے کل پانی کا تقریباً 90 فیصد دریائے سندھ کے سسٹم سے آتا ہے، جس کا منبع ہمالیہ، کشمیر اور بھارت کے زیرِ انتظام علاقوں میں ہے۔ اگر بھارت دریاؤں کا پانی روک لیتا ہے — خاص طور پر سندھ، چناب اور جہلم کا — تو پاکستان کو جس درجے کی خشک سالی، قحط، معاشی بدحالی اور سماجی بحران کا سامنا ہوگا، اس کی ایک جھلک درج ذیل ہے:
📉 Facts & Figures: پاکستان کی پانی پر انحصاری
پاکستان کا 90% زرعی رقبہ دریائی نظام سے سیراب ہوتا ہے۔
74% آبادی دیہی علاقوں میں رہتی ہے اور زراعت پر منحصر ہے۔
پاکستان دنیا کے ان 10 ممالک میں شامل ہے جہاں پانی کی شدید قلت کا خطرہ ہے (UNDP، 2023)
ہر پاکستانی کو روزانہ 1,000 مکعب میٹر سے کم پانی دستیاب ہے (Water Scarcity Threshold)
اگر یہی رفتار رہی، تو 2025 تک پاکستان “Complete Water Scarcity Country” بن جائے گا۔
🧨 کیا اگلی جنگ پانی پر ہوگی؟
بھارت اور پاکستان کے درمیان “Indus Waters Treaty” 1960 میں ہوئی تھی، جس کے تحت پاکستان کو تین مغربی دریاؤں (سندھ، چناب، جہلم) اور بھارت کو تین مشرقی دریاؤں کا کنٹرول دیا گیا۔ لیکن:
بھارت متعدد ڈیمز تعمیر کر رہا ہے، خاص طور پر کشمیر میں، جو پاکستان کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔
کشن گنگا، راتلے، بگلیہار ڈیم جیسے منصوبے پاکستان کے خدشات میں اضافہ کر رہے ہیں۔
2016 میں بھارت نے “پانی اور خون ایک ساتھ نہیں بہہ سکتے” جیسا بیان دیا تھا، جو پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی طرف اشارہ ہے۔
اگر بھارت پانی روکنے کی پالیسی پر سنجیدگی سے عمل کرے، تو یہ ایک “غیر روایتی جنگ” کی ابتدا ہوگی — اور یہ جنگ روایتی ہتھیاروں سے زیادہ خطرناک ہو گی۔
🚨 اگر پانی بند ہوا تو کیا ہوگا؟
پنجاب، سندھ اور جنوبی بلوچستان میں شدید زرعی قحط
گندم، کپاس، چاول جیسی اہم فصلوں کی پیداوار میں 60-80٪ تک کمی
فصلوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ → غذائی قلت
بجلی کی پیداوار متاثر ہوگی (تربیلا اور منگلا جیسے ڈیم خشک ہو سکتے ہیں)
ماحولیاتی تباہی: زیر زمین پانی مزید نیچے جائے گا، اور سیم و تھور پھیلے گا
اندرونی نقل مکانی (climate migration) شروع ہوگی — خاص طور پر سندھ و بلوچستان سے
👨👩👧👦 ہم اپنے بچوں کو پانی کی قدر سکھا رہے ہیں؟
بدقسمتی سے پانی ہمارے گھروں میں سب سے ضائع ہونے والی نعمت بن چکی ہے۔
سروے بتاتے ہیں:
ایک پاکستانی شہری روزانہ اوسطاً 60-100 لیٹر پانی ضائع کرتا ہے
وضو، گاڑی دھونا، کپڑے دھونا، نہانا — یہ تمام کام اکثر بغیر احتیاط کیے کیے جاتے ہیں
اسکولز اور گھروں میں پانی کی بچت سے متعلق تعلیم نہ ہونے کے برابر ہے
✅ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟
گھروں میں ٹپکتی نلکیاں بند کرائیں — ایک نل روزانہ 20 لیٹر پانی ضائع کرتا ہے
بچوں کو بچپن سے پانی کی قدر سکھائیں — ہر قطرہ قیمتی ہے
اسکولز اور مساجد میں awareness sessions ہوں
زراعت میں ڈرپ ایریگیشن اور water-efficient methods کو فروغ دیا جائے
حکومت کو چاہیے کہ واٹر پالیسی کو قومی سیکیورٹی کا مسئلہ سمجھے
پانی کی جنگ بندوقوں سے نہیں، نلکوں اور ڈیمز سے لڑی جا رہی ہے۔ اگر ہم نے ہوش نہ پکڑا تو آئندہ نسلیں صرف تاریخ کی کتابوں میں “زرخیز پاکستان” کا ذکر پڑھیں گی۔ پانی ہماری زندگی کا بنیادی عنصر ہے — اس کی حفاظت صرف حکومت کی نہیں، ہر پاکستانی کی ذمہ داری ہے۔