بھارت نے چینی سرکاری میڈیا کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بلاک کر دیے: کشمیر تنازع پر پاکستانی پروپیگنڈہ پھیلانے کا الزام

بھارت اور چین کے درمیان سفارتی تعلقات میں ایک نئی کشیدگی اس وقت سامنے آئی جب بھارتی حکومت نے چینی سرکاری میڈیا کے اداروں گلوبل ٹائمز اور شنہوا نیوز ایجنسی کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھارت میں بلاک کر دیے۔ بھارتی وزارت اطلاعات و نشریات کے مطابق ان اداروں نے کشمیر کے حوالے سے ایسا مواد شائع کیا جسے بھارت نے “پاکستانی پروپیگنڈہ” قرار دیا۔

کشمیر تنازعہ اور پروپیگنڈہ کا الزام
بھارت کا الزام ہے کہ چینی سرکاری میڈیا نے حالیہ کشیدگی کے دوران ایسے بیانیے کو فروغ دیا جو قومی سلامتی اور سرحدی تنازعات کے تناظر میں “غلط معلومات” پھیلانے کے مترادف تھا۔ گلوبل ٹائمز کے X (سابق ٹوئٹر) اکاؤنٹ پر ایک پوسٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ پاکستان نے حالیہ جھڑپ میں بھارتی لڑاکا طیارے مار گرائے ہیں۔ بھارتی حکومت نے اس دعوے کو “جھوٹا اور غیر مصدقہ” قرار دیتے ہوئے چینی میڈیا کے اکاؤنٹس بلاک کرنے کا فیصلہ کیا۔

چینی سفارت خانے کو اطلاع اور سفارتی تناؤ
بھارت نے اس فیصلے سے چین کے سفارتی حکام کو بھی آگاہ کر دیا اور متنبہ کیا کہ اگر “غیر ذمہ دارانہ رپورٹنگ” جاری رہی تو اس کے سنگین نتائج ہو سکتے ہیں۔ سفارتی ذرائع نے اس بات کی تصدیق کی کہ گلوبل ٹائمز کو صاف الفاظ میں بتا دیا گیا کہ بھارت اپنی قومی سلامتی پر سمجھوتہ نہیں کرے گا اور “بیانیے کی جنگ” کے خلاف مؤثر اقدامات کرے گا۔

اروناچل پردیش تنازعہ اور چینی دعوے
یہ واقعہ ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب چین نے اپنے نقشوں میں بھارتی ریاست اروناچل پردیش کے 27 مقامات کے نام تبدیل کر دیے، جس پر بھارت نے شدید اعتراض کیا۔ اس اقدام نے دونوں ممالک کے درمیان موجود کشیدگی کو مزید بڑھا دیا۔

اظہار رائے کی آزادی یا معلوماتی جنگ؟
دوسری طرف گلوبل ٹائمز کے ایڈیٹوریل بورڈ نے اس پابندی کو “اظہار رائے کی آزادی پر حملہ” قرار دیا ہے۔ ان کا مؤقف ہے کہ بین الاقوامی میڈیا کا حق ہے کہ وہ تنازعات اور اہم خبروں پر اپنی رائے دے، اور بھارت کا یہ اقدام معلومات پر قدغن لگانے کی کوشش ہے۔

کشمیر: بیانیے کی جنگ کا مرکز
یہ واقعہ ایک بار پھر ظاہر کرتا ہے کہ کشمیر صرف ایک جغرافیائی تنازعہ نہیں بلکہ بین الاقوامی طاقتوں کے بیانیوں کی جنگ کا مرکز بن چکا ہے۔ یہاں صرف سرحدی تنازعات نہیں بلکہ ہر خبر، ہر بیان اور ہر تبصرہ ایک نیا محاذ کھول دیتا ہے۔

کیا چین اور بھارت کے تعلقات مزید بگڑیں گے؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ چین اس پابندی پر باضابطہ ردعمل کب اور کیسے دیتا ہے، اور کیا یہ واقعہ دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات کو مزید خراب کرے گا یا دونوں ممالک مسئلہ حل کرنے کے لیے سفارتی سطح پر بات چیت کا راستہ اختیار کریں گے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں