مکہ مکرمہ میں زمین سے فضاء میں مار کرنے والا جدید دفاعی میزائل سسٹم نصب کر دیا گیا. ایرانی تیل، پابندیاں اور گوتم اڈانی: ’مودی سے قریبی تعلقات رکھنے والے‘ انڈین ارب پتی تاجر کے خلاف امریکہ میں تحقیقات کیوں ہو رہی ہیں؟ دنیا کا انوکھا سفر: سپین سے مکہ تک گھوڑوں پر سات ماہ کا مشن پاکستان ایئر فورس کے پائلٹس سمیت اہم عملے کی عید کی چھٹیاں منسوخ! اسلام آباد میں ٹک ٹاکر ثناء یوسف کے لرزہ خیز قتل کی سنسنی خیز تفصیلات سامنے آ گئیں چین کا بین البراعظمی بیلسٹک میزائل DF-5B — دنیا کے لیے ایک واضح پیغام؟ پاکستان اور بیلاروس کے درمیان فضائی تعاون — ایک نئے دفاعی دور کا آغاز؟ “دلوں کے ڈاکٹر گورو گاندھی کا انتقال — 16 ہزار سے زائد کامیاب آپریشنز کے ساتھ ایک عظیم ہستی ہمیشہ کے لیے خاموش۔ ایک نئی تاریخ رقم: حرمین کے درمیان خواتین ڈرائیورز کی تیز رفتار ٹرین سروس کا آغاز! “جب خوشی کا جشن غم میں بدل جائے، تو اصل جیت انسانیت کی ہوتی ہے — رائل چیلنجرز بنگلورو نے یہی کر دکھایا!”

کولکتہ میں بھارتی فوج کا نمازِ عیدالاضحیٰ کی اجازت دینے سے انکار—عوامی غم و غصہ اور روایت خطرے میں

کولکتہ کے مرکزی علاقے ریڈ روڈ پر عیدالاضحیٰ کی نماز کی اجازت نہ دینے کا بھارتی فوج کا ابتدائی فیصلہ عوامی اور مذہبی حلقوں میں شدید غم و غصے کا باعث بن گیا ہے۔ فوج کی جانب سے جاری کردہ نوٹیفکیشن میں کہا گیا کہ 7 یا 8 جون کو اس مقام پر نماز ادا کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ یہ جگہ فوجی سرگرمیوں کے لیے مختص ہے۔

ریڈ روڈ، جس کا نیا نام اندرا گاندھی سرانی ہے، ایک صدی سے زیادہ عرصے سے کولکتہ خلافت کمیٹی کے زیر اہتمام عیدین کی نماز کے لیے مخصوص رہا ہے۔ یہ روایت 1919 میں شروع ہوئی تھی، اور اسے شہر کے سب سے بڑے بین المذاہب اجتماعات میں شمار کیا جاتا ہے۔

بھارتی فوج کے اس انکار کے خلاف خلافت کمیٹی نے شدید احتجاج کیا، جس میں کہا گیا کہ یہ فیصلہ نہ صرف ایک پرانی مذہبی روایت کو توڑنے کی کوشش ہے بلکہ یہ آئینی طور پر حاصل مذہبی آزادی کے حق کے بھی خلاف ہے۔ کمیٹی نے اس فیصلے کو عدالت میں چیلنج کرنے پر بھی غور کیا تھا۔

ریاستی حکومت کی مداخلت، مذاکرات اور عوامی دباؤ کے بعد بھارتی فوج نے بالآخر اپنا فیصلہ واپس لیتے ہوئے 2 جون کو اعلان کیا کہ وہ اپنے تربیتی شیڈول میں تبدیلی کر کے نماز کے اجتماع کی اجازت دے گی۔ اس فیصلے نے عارضی طور پر کشیدگی کو کم کیا اور ایک صدی پرانی روایت کو بچا لیا گیا۔

یہ واقعہ اس بات کی واضح مثال ہے کہ بھارت جیسے جمہوری ملک میں مذہبی آزادی اور سیکولر روایات کو برقرار رکھنے کے لیے ریاستی اداروں اور عوامی نمائندوں کو مل کر کردار ادا کرنا ہوگا۔