“بھارت کا معاشی طاقت بننے کا دعویٰ قبل از وقت نکلا — چوتھی بڑی معیشت بننے کا خواب ابھی پورا نہیں ہوا!”

حال ہی میں بھارتی میڈیا اور سوشل پلیٹ فارمز پر بڑے زور و شور سے یہ دعویٰ کیا گیا کہ بھارت نے جاپان کو پیچھے چھوڑ کر دنیا کی چوتھی سب سے بڑی معیشت کا درجہ حاصل کر لیا ہے۔ اس خبر کو بھارت کی “معاشی فتح” کے طور پر پیش کیا جا رہا تھا، تاہم جلد ہی اس دعوے کی حقیقت سامنے آ گئی۔
بھارتی حکومت کے پلاننگ کمیشن (نیتی آیوگ) کے رکن اروند ورمانی نے ان تمام خبروں کی تردید کرتے ہوئے واضح کیا ہے کہ بھارت نے تاحال جاپان کو پیچھے نہیں چھوڑا اور نہ ہی وہ ابھی چوتھی بڑی معیشت بنا ہے۔ ان کے مطابق، بھارت کی معیشت یقیناً تیزی سے ترقی کر رہی ہے، لیکن نامیاتی ڈیٹا، عالمی مالیاتی اداروں کی درجہ بندی اور حقیقی اعداد و شمار کی بنیاد پر دیکھا جائے تو ابھی بھارت پانچویں پوزیشن پر ہی موجود ہے۔
اروند ورمانی کا کہنا تھا کہ میڈیا میں چلنے والے دعوے “تجزیاتی اندازوں” پر مبنی ہیں، جنہیں باضابطہ طور پر عالمی ادارے تسلیم نہیں کرتے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بھارت موجودہ ترقی کی رفتار برقرار رکھتا ہے، تو 2025 یا 2026 تک ممکن ہے کہ وہ جاپان کو پیچھے چھوڑ دے، مگر فی الحال ایسا نہیں ہوا۔
اس وضاحت کے بعد بھارت کے اس دعوے پر سوال اٹھنا شروع ہو گئے ہیں کہ آیا یہ صرف سیاسی تشہیر تھی یا واقعی کچھ معاشی بنیاد پر کیا گیا اعلان تھا۔ یہ پہلا موقع نہیں جب بھارت نے معاشی اعداد و شمار کے حوالے سے بڑھا چڑھا کر بات کی ہو۔ ماضی میں بھی جی ڈی پی گروتھ، غربت کی شرح اور روزگار کے اعداد و شمار پر تنازع سامنے آ چکا ہے۔
بھارت کی معیشت تیزی سے ترقی کر رہی ہے، لیکن جاپان جیسی مستحکم معیشت کو پیچھے چھوڑنے کے لیے نہ صرف وقت درکار ہے بلکہ ٹھوس معاشی اصلاحات بھی ضروری ہیں۔
اروند ورمانی کی وضاحت نے یہ بات صاف کر دی ہے کہ بھارت کو ابھی عالمی چوتھی بڑی معیشت کہلانے کے لیے مزید انتظار کرنا ہوگا۔