“بھارت کی خام خیالی ٹوٹ گئی، امن کا بھرم چکنا چور!”

بھارت کو ’صورت حال کی سنگینی‘ کا اندازہ شاید اب ہوا ہے۔ بھارت کی جمع تفریق شاید غلط نکلی ہے۔ ان کو شاید یقین تھا کہ وہ ’پاکستان کے اندر تک‘ کارروائی کریں گے اور پاکستان کوئی خاص ردعمل نہیں دے گا یا وہ کوئی بڑی جوابی کارروائی کرنے کا رسک نہیں لے گا۔

گزشتہ روز پہلی مرتبہ ایسا ہوا ہے کہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکر نے کہا ہے کہ پاکستانی حملے کا شدید ردعمل دیا جائے گا۔ بھارتی وزارت دفاع نے بھی یہی کہا ہے۔ یہ بالکل ویسے ہی بیانات ہیں، جیسے بھارتی کارروائی سے پہلے پاکستانی حکام تواتر سے دے رہے تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ بھارت کو اب جا کر پاکستان کی ممکنہ جوابی کارروائی کا یقین ہوا ہے۔

دارالحکومت دہلی میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے اور تمام سول سرکاری ملازمین کی چھٹیاں منسوخ کر دی گئیں ہیں۔ آج پہلی مرتبہ بھارتی بازار حصص میں ‌800 پوائنٹس سے زیادہ کی کمی ہوئی ہے اور انڈین پریمئیر لیگ معطل کر دی گئی ہے۔

پاکستان اور بھارت کے درمیان یہ کشیدگی 22 اپریل کو بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے پہلگام میں سیاحوں پر ہونے والے ایک حملے میں 26 افراد کی ہلاکت کے بعد پیدا ہوئی۔ اس کی ذمہ داری بھارت پاکستان پر ڈالتا ہے، تاہم پاکستان اس الزام کی تردید کرتا آیا ہے۔

اسی تناظر میں بھارت کی طرف سے منگل اور بدھ کی درمیانی شب پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مختلف اہداف کو نشانہ بنایا گیا، جس کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی عروج پر پہنچ چکی ہے اور دونوں طرف سے ایک دوسرے پر حملوں کے الزامات سامنے آ رہے ہیں۔

پاکستان نے کہا ہے کہ ابھی ”جوابی کارروائی نہیں‘‘ کی گئی۔ اگر صورت حال ایسی ہی رہی تو چند روز تک دونوں ملکوں کی معیشتوں پر اثرات نظر آنا شروع ہو جائیں گے۔ اس میں بھارت کے لیے بڑا دھچکا ہے کیوں کہ معیشت اس کی بڑی ہے۔

پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے عالمی امیج کو ایک اور حوالے سے بھی دھچکہ پہنچا ہے۔ ایک عرصہ ہوا تھا کہ بین الاقوامی دنیا نے بھارت اور پاکستان کا موازنہ کرنا بند کر دیا تھا لیکن اب دوبارہ پاکستان کا موازنہ بھارت سے کیا جا رہا ہے۔ فضائیہ میں پاکستان کی برتری کو بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔

دعا یہی کرنی چاہیے کہ یہاں سے ہی حالات معمول کی طرف لوٹ جائیں۔ پاکستان نے مبینہ طور پر جو رافال اور دیگر طیارے مار گرائے ہیں، یہی بہت بڑی کامیابی ہے۔ لیکن بھارت کی اندر مچی ہلچل بتاتی ہے کہ ان کی ابتدائی کیلکولیشنز کہیں نہ کہیں غلط ثابت ہوئی ہیں۔

پاکستان نے ابھی بھارت کے ”اندرونی علاقوں تک میزائل‘‘ مارنے کی جوابی کارروائی نہیں کی ہے لیکن اب بھارت کے بیانات اور تیاریاں بتا رہی ہیں کہ پس پردہ کچھ نہ کچھ ہونے والا ہے۔

لیکن یہاں تک جو بات ہے، وہ جنگ کی بات ہے، جو سبھی کر رہے ہیں۔

سچ پوچھیں تو اس جنگی جنون میں بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے، امن، محبت، زندگیاں اور بچوں کی مسکراہٹیں۔ ہم دونوں طرف کے عوام شاید ابھی اس کا ادراک نہیں کر پا رہے۔

مجموعی طور پر دیکھیں تو یہ صورت حال خود نریندر مودی کی پیدا کردہ ہے، ایک قوم پرست یا عوامیت پسند لیڈر کا سب سے بڑا نقصان یہی ہوتا ہے۔ ایسا لیڈر خود سیاسی فائدہ اٹھاتا ہے، خود محفوظ رہتا ہے، مرتا فقط غریب ہے۔ جنگیں ہمیشہ ایلیٹ کو فائدہ دیتی ہیں، عوام کا صرف خون بہتا ہے۔

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے حامی پاکستان کے ساتھ ساتھ ہر اس بھارتی شہری کو بھی نشانہ بنا رہے ہیں، جو امن کی بات کر رہا ہے یا جو نریندر مودی کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے۔

پاکستانی دوستوں سے بھی یہی گزارش ہے کہ اگر حکومت پاکستان آج یا کل کوئی جنگ بندی کی بات کرتی ہے تو اس میں حکومت کا ساتھ دیا جائے۔

جنگ بندی اور امن کی بات کرنا کمزوری نہیں ہے بلکہ انسانیت کی بقا کی بات ہے، بچوں کے مستقبل کی بات ہے، نفرت کے خاتمے کی بات ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں