بھارت کا پاکستان سے دوسرا باضابطہ رابطہ — توی کے بعد ستلج میں بھی پانی چھوڑنے کی اطلاع

بھارت نے دریاؤں میں پانی چھوڑنے کا سلسلہ تیز کر دیا — بھارتی ہائی کمیشن نے ستلج میں اضافی پانی چھوڑنے سے متعلق پاکستان کو باقاعدہ اطلاع دے دی۔
تفصیلی رپورٹ:
پاکستان اور بھارت کے درمیان آبی معاملات ایک بار پھر توجہ کا مرکز بن گئے ہیں، کیونکہ بھارت نے دریائے توی کے بعد اب دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کی اطلاع دے دی ہے۔ یہ بھارت کی جانب سے پاکستان کو دوسرا باضابطہ رابطہ ہے، جو کہ بین الاقوامی آبی معاہدات خصوصاً سندھ طاس معاہدے کے تحت ایک رسمی تقاضہ بھی ہے۔
بھارتی ہائی کمیشن کی جانب سے پاکستانی حکام کو باقاعدہ آگاہ کیا گیا ہے کہ بھارت ہری کے پتن کے مقام سے دریائے ستلج میں مزید پانی چھوڑ سکتا ہے۔ اس اطلاع کے بعد پاکستان کے متعلقہ ادارے، بالخصوص فلڈ فورکاسٹنگ ڈویژن، پی ڈی ایم اے اور محکمہ آبپاشی ہائی الرٹ ہو چکے ہیں۔
پس منظر:
اس سے قبل بھارت نے دریائے توی میں پانی چھوڑنے کی اطلاع دی تھی، جس سے چناب اور جہلم کے نظام میں بھی وقتی خلل پیدا ہوا۔
اب دریائے ستلج میں پانی چھوڑنے کی اطلاع ایسے وقت میں آئی ہے جب ملک کے کئی علاقے پہلے ہی سیلابی صورتحال سے متاثر ہیں۔
ممکنہ خدشات:
ماہرین کے مطابق، اگر بڑی مقدار میں پانی چھوڑا گیا تو جنوبی پنجاب، بہاولنگر، پاکپتن، قصور اور اوکارہ جیسے علاقوں میں نچلے درجے کا سیلاب آ سکتا ہے۔
مقامی انتظامیہ کو ہنگامی اقدامات کرنے اور ریسکیو اداروں کو تیار رہنے کی ہدایات جاری کی گئی ہیں۔
سندھ طاس معاہدہ اور موجودہ صورتحال:
بھارت اور پاکستان کے درمیان 1960 کا سندھ طاس معاہدہ دریائی پانی کی تقسیم کا فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس کے تحت ستلج، راوی اور بیاس کے پانی پر بھارت کو مکمل کنٹرول حاصل ہے، جب کہ پاکستان کو چناب، جہلم اور سندھ کے پانیوں کا حق حاصل ہے۔ تاہم، بھارت کو معاہدے کے تحت اگر وہ پاکستان کے حصے کے دریاؤں میں پانی چھوڑے یا بند کرے، تو باقاعدہ پیشگی اطلاع دینا ضروری ہے۔
حالیہ اقدام بظاہر معاہدے کے دائرہ کار میں ہے، لیکن ماہرین اسے دباؤ ڈالنے کی غیر روایتی حکمت عملی سے بھی تعبیر کر رہے ہیں۔ بھارت کی جانب سے ایسے اقدامات سیاسی، سفارتی اور آبی محاذ پر تناؤ کو جنم دے سکتے ہیں، خاص طور پر ایسے وقت میں جب دونوں ممالک کے تعلقات پہلے ہی نازک موڑ پر ہیں۔