انڈونیشیا ایک بڑی مسلم اکثریتی ریاست ہے، لیکن اس کی مارکیٹوں پر کنٹرول چینی نژاد باشندوں کا ہے۔

دنیا میں اگر کسی کامیاب کاروبار یا معاشی غلبے کی بنیاد تلاش کی جائے، تو اکثر ہمیں یہ راز ایک ہی لفظ میں ملتا ہے: رویہ۔ یہی وہ نقطہ ہے جس پر ریاض علی خٹک کے مشاہدے پر مبنی یہ تحریر روشنی ڈالتی ہے۔ انڈونیشیا، جہاں دنیا کی سب سے بڑی مسلم آبادی بستی ہے، وہاں کی مارکیٹوں پر چینی نسل کے تاجروں کا غلبہ حیران کن ضرور لگتا ہے، لیکن جب اس کی جڑوں میں جھانکا جائے تو حقیقت بہت واضح ہو جاتی ہے۔

چینی نسل کے تاجر دو صدی قبل انڈونیشیا میں آ کر آباد ہوئے، مگر ان کا کاروباری رویہ ایسا رہا کہ وقت کے ساتھ ساتھ انہوں نے مارکیٹ پر اعتماد اور اختیار دونوں حاصل کر لیا۔ برعکس اس کے، مقامی مسلمان تاجروں کا انداز سادہ، روایتی اور بعض اوقات لاپرواہ نظر آتا ہے۔ جب ایک گاہک کسی انڈونیشی مسلمان کی دکان پر مطلوبہ چیز تلاش کرنے آتا ہے اور وہ دستیاب نہ ہو، تو جواب سادہ سا ہوتا ہے: “یہ چیز ہمارے پاس نہیں۔” نہ کوئی متبادل، نہ کوئی دلچسپی، نہ کوئی وعدہ۔

دوسری طرف، چینی تاجر کا رویہ گاہک کو خوش آمدید کہنے سے لے کر اس کی ضرورت پوری کرنے کی مکمل کوشش تک محیط ہوتا ہے۔ اگر چیز موجود نہ ہو تو وہ فوراً کہتا ہے: “یہ آؤٹ آف اسٹاک ہے، مگر میرے پاس کچھ متبادل ہیں۔” اور اگلے ہی دن وہ مطلوبہ چیز اس کے سٹور پر آ جاتی ہے۔ یہ عمل صرف چیز بیچنے کا نہیں بلکہ اعتماد اور تعلق بیچنے کا ہے۔ یہی وہ چیز ہے جو چینی نسل کے تاجروں کو سربلند کرتی ہے، نہ کہ کوئی سازش، منصوبہ یا قبضہ۔

یہی سبق ہمیں ایک نشہ کرنے والے شخص کی بات سے بھی ملتا ہے، جو کہتا ہے کہ “میں اپنی زندگی برباد کرتا ہوں، مگر دنیا مجھے برا کہتی ہے۔” درحقیقت، دنیا کسی کی نیت، عقیدہ یا نسل کو نہیں دیکھتی، وہ صرف عمل اور رویے کو دیکھتی ہے۔ اگر ہم اچھے رویے اور بہتر سلوک کے ساتھ میدان میں آئیں، تو نہ صرف ہمیں عزت ملے گی بلکہ کامیابی بھی قدم چومے گی۔

یہ بات صرف انڈونیشیا کے تناظر میں نہیں، بلکہ ہر اُس معاشرے کے لیے سبق ہے جہاں لوگ شکایت کرتے ہیں کہ “دوسری قوموں نے ہمیں پیچھے چھوڑ دیا ہے۔” حقیقت یہ ہے کہ کامیابی کا تعلق کسی قوم سے نہیں، عادت اور رویے سے ہے۔ بازار، میدان، دنیا… یہ سب تمغے نہیں بانٹتے، صرف محنت، لگن اور سلیقے کو سراہتے ہیں۔

چینی نسل نے انڈونیشیا کی مارکیٹ پر “قبضہ” نہیں کیا، بلکہ انہوں نے اعتماد جیتا ہے۔ وہ گاہک کے دل میں اپنی جگہ بناتے ہیں، اور یہی رویہ ان کو کامیاب کرتا ہے۔ اگر ہم بھی اسی جذبے اور اسی لگن کے ساتھ اپنے عمل کو بہتر بنائیں، تو نہ صرف انڈونیشیا بلکہ دنیا کی ہر مارکیٹ میں ہمیں بھی سر بلندی نصیب ہو سکتی ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں