سندھ طاس معاہدہ: پانی کی جنگ یا امن کا پل؟

پانی، جو بظاہر ایک سادہ قدرتی وسیلہ ہے، درحقیقت پاکستان جیسے زرعی ملک کے لیے زندگی اور موت کا مسئلہ ہے۔ 1960ء میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ایک اہم معاہدہ ہوا جسے “سندھ طاس معاہدہ” کہا جاتا ہے۔ یہ معاہدہ عالمی بینک کی ثالثی سے طے پایا تھا تاکہ دونوں ممالک کے درمیان پانی کے مسئلے پر کسی بڑے تنازعے سے بچا جا سکے۔ معاہدے کے مطابق دریائے سندھ کے نظام سے منسلک چھ بڑے دریاؤں کو دونوں ممالک کے درمیان تقسیم کیا گیا۔ بھارت کو دریائے راوی، بیاس اور ستلج دیے گئے جبکہ پاکستان کو دریائے سندھ، جہلم اور چناب کے پانی کا زیادہ تر استعمال کا حق دیا گیا۔ بھارت کو مغربی دریاؤں پر صرف محدود تعمیرات کی اجازت ہے، لیکن وہ پانی کے بہاؤ کو متاثر نہیں کر سکتا۔

یہ معاہدہ کئی جنگوں کے باوجود بھی قائم رہا، اور دنیا میں اسے پانی کی تقسیم کے کامیاب ترین ماڈلز میں شمار کیا جاتا ہے۔ تاہم اب، بھارت کی جانب سے اس معاہدے کی معطلی کا اعلان ایک انتہائی سنگین پیش رفت ہے۔ یہ فیصلہ محض سفارتی سطح پر نہیں بلکہ پاکستان کی معیشت، توانائی، ماحولیات، اور قومی سلامتی پر براہ راست اثر ڈال سکتا ہے۔

پاکستان کی زیادہ تر زرعی زمین انہی مغربی دریاؤں سے سیراب ہوتی ہے۔ اگر پانی بند کیا جاتا ہے تو پنجاب اور سندھ کی زمینیں بنجر ہو سکتی ہیں، فصلیں تباہ ہو سکتی ہیں، اور لاکھوں کسان روزگار سے محروم ہو سکتے ہیں۔ صرف یہی نہیں، پینے کے پانی کا بحران بھی سنگین ہو جائے گا، خصوصاً لاہور، کراچی اور دیگر بڑے شہروں میں۔ بجلی کی پیداوار کے لیے بنائے گئے بڑے ڈیم، جیسے تربیلا اور منگلا، پانی کی کمی کی وجہ سے بجلی کم پیدا کریں گے اور یوں ملک میں لوڈشیڈنگ مزید بڑھے گی۔ ماحولیاتی نظام بھی اس بحران کا شکار ہو جائے گا، کیونکہ دریا سوکھنے سے مچھلیاں، آبی جانور اور اردگرد کی فطری زندگی متاثر ہو گی۔

سفارتی سطح پر اس فیصلے سے پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں مزید تناؤ آ سکتا ہے، اور اگر حالات زیادہ بگڑتے ہیں تو کسی بھی وقت ایک بڑا تنازع کھڑا ہو سکتا ہے۔ ایسے حالات میں ضروری ہے کہ پاکستان فوری طور پر اقوامِ متحدہ، عالمی بینک اور دیگر عالمی اداروں سے رجوع کرے، تاکہ بھارت کو اس بین الاقوامی معاہدے کی پاسداری پر مجبور کیا جا سکے۔

ساتھ ہی پاکستان کو اندرونی سطح پر بھی اپنی تیاری مکمل رکھنی ہو گی۔ پانی کے ضیاع کو روکنا، جدید آبپاشی نظام اپنانا، نئے ڈیمز کی تعمیر تیز کرنا، اور عوامی شعور بیدار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ نئی نسل کو سمجھنا ہو گا کہ پانی اب صرف ایک قدرتی نعمت نہیں بلکہ قومی سلامتی کا بنیادی ستون بن چکا ہے۔

50% LikesVS
50% Dislikes

اپنا تبصرہ بھیجیں